کچھ برس قبل مجھے اپنے کام کاج اورآرام کے لیے چند ایک ملازموں کی ضرورت پڑی اورمیرے پاس اتنی استطاعت تھی کہ میں ملازمین کی ہرضرورت پوری کرسکوں اورشروط کے مطابق انہیں آرم و راحت پہنچا سکوں ۔
ان ملازمین میں میں ایک کم عمر لڑکی بھی تھی جس نے معاھدے کی شروط پر اتفاق کیا ، یہ ملازمہ میرے ضرورت تک میرے پاس رہے گی اورجب ضرورت ختم ہوتوواپس چلی جاۓ گی ۔
یہ لڑکی کم عمرتھی اوراپنے والدین کے ساتھ رہتی اور غیر شادی شدہ تھی تواس نے یہ قبول کیا میں اس کا سردار ہوں اورمجھے اجازت دے دی کہ میں اسے دیکھ اور چھو سکتا ہے ، ہم نے بہت وقت اکٹھے ہی گزارا پھرمیں نے اسےاس معاھدہ سے آزاد کردیا اوراس سے شادی کرلی ۔
– یہ ممکن ہے کہ دوران جنگ غلام بنا لیے جائیں ، لیکن یہ کب ہوسکتا ہے ؟
– ہم غلام کس طرح بنا سکتے ہیں اوراس کی شروط شرعیہ کیا ہیں ؟
– کیا مالک اورلونڈی کے درمیان جسمانی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں اوراس کی حد کیا ہے ۔
– کیا مالک اورلونڈی کے درمیان کوئی عمرکی حدود ہیں ؟
– کیا یہ چوری چھپے کرنا ممکن ہے یا کہ اس کا اعلان کرنا ضروری ہے ؟
– مالک اورلونڈی کے درمیان عمرکی کم از کم حد کیا ہے ؟
– کیا لونڈیاں صرف جنگ کے وقت ہی پائي جاتی ہیں ؟
– اورکیا لونڈی کا مالک بننے کے لیے کوئی اورطریقہ بھی ہے ؟
– کیا یہ صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کئي ایک غلاموں کے مالک تھے ؟
عورت ملازمہ رکھی اوربعد میں اس سے اتفاق کرلیا کہ وہ اس کی لونڈی ہوگی
سوال: 26067
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کچھ سوال توتکرار کے ساتھ اورایک دوسرے میں داخل ہیں اس لیے ان شاءاللہ ہم سب سوالوں کا جواب مندرجہ ذیل نقاط میں دیں گے :
پہلا :
آپ نے ملازمہ کے ساتھ ایک حرام کام کیا ہے جوکہ آپ کے لیے جائزنہ تھا ، ملازمہ لونڈی نہیں کہ وہ آپ کے چھونے اورمعاشرت کے لیے جائز ہو ، اس لیے کہ ملازمہ آزاد عورت ہے وہ شادی کےبغیر آپ کے لیے جائز نہیں ، اوروہی کام آپ نے کیاتو ہے لیکن افسوس کہ آپ نے اس میں تاخیر سے کام لیا ۔
اورملازمہ اورآپ کے درمیان جومعاھدہ تھا وہ گھر میں کام کاج کی ملازمت کا معاھدہ ہے ، یہ ایسا معاھدہ نہیں کہ وہ آپ کی معاشرت کے لیے حلال ہوجاۓ ، اورآپ کا یہ کہنا کہ اس نے یہ موافقت کرلی کہ آپ اس کے مالک ہیں اورآپ اسے دیکھ اورچھوسکتے ہیں اورآپ نے اسے اس معاھدہ سے آزاد کردیا ہے
آپ نے جوکچھ کیا ہے وہ سب کچھ شرعی اعتبار سے صحیح نہیں کیونکہ آزاد عورت لونڈی نہیں بن سکتی الا یہ کہ وہ کافرہ اورایسے ملک سے تعلق رکھتی ہو جومسلمانوں سے جنگ کرے اورمسلمان اس پر قبضہ کرلیں اورجس کے متعلق آپ نے پوچھا ہے وہ سب کچھ فی الحال مفقود ہے ۔
دوسرا :
مسلمان اورکفار کی جنگ کے دوران غلام اورلونڈیاں بنانا ممکن ہے ، نہ کہ مسلمانوں میں آپس کے فتنہ کے وقت ۔
رسالت محمدیہ سے قبل جوغلامی کے مصادر پاۓ جاتے تھے انہیں اسلام نے ایک ہی مصدرمیں محصور کرکے رکھ دیا ہے جو کہ لڑائي کی غلامی ہے کہ کفار قیدیوں کے مرد وعورت اوربچوں پر غلامی ہوسکتی ہے اورانہيں غلام بنایا جاسکتا ہے ۔
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
غلام کے مالک بننے کا سبب کفر اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ ہے ، لھذا جب اللہ تعالی مسلمان مجاھدین جوکہ اپنا مال و جان اوراللہ تعالی کی دی ہوئ ہرچيز اللہ تعالی کو دین اورکلمہ کوکفار پربلند کرنے کےلیے صرف کرتے ہیں اورانہيں جھاد کی قدرت دیتا ہے ۔
توکفار کوقیدی بنا کران کے غلام بنا تا ہے لیکن اگر امام المسلمین اسلام اورمسلمانوں کی مصلحت کی خاطران قیدیوں پر احسان کرتے ہوۓ یا پھر فدیہ لے کر انہيں رہا کردے ۔ اھـ اضواء البیان ( 3 / 387 ) ۔
تیسرا :
مجاھدین لونڈیوں کے بھی اسی طرح مالک بنتے ہیں جس طرح کہ وہ مال غنیمت کے مالک بنتے ہیں ، مالک لونڈی اورغلام کوبیچ سکتا ہے ، اوران دونوں حالتوں ( میدان جنگ اورخرید کرمالک بننے ) میں مالک کے لیے جائز نہیں کہ وہ استبراء رحم سے قبل ( یعنی حیض آنے سے قبل ) لونڈی کے ساتھ مباشرت کرے ، اوراگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل کا انتظار کرے گا اس سے قبل مباشرت نہیں کرسکتا ۔
رویفع بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےجنگ حنین والے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :
اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان رکھنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کودیتا پھرے ( یعنی حاملہ عورت سے مباشرت کرے ) اورنہ ہی اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لیے حلال ہے کہ وہ قیدی عورت میں سے کسی کے ساتھ استبراء رحم سے قبل مباشرت کرے ، اورنہ ہی اللہ تعالی اوریوم آخرت پرایمان رکھنے والے کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ مال غنیمت تقسیم ہونے سے قبل فروخت کردے ۔
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2158 ) شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 1890 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ،
چوتھا :
میاں بیوی کےجسدی تعلقات کی طرح مالک اورلونڈی کےدرمیان تعلقات قائم کرنا جائز ہيں ، لیکن اگراس نے لونڈی کی شادی کسی اورسے کردی توپھر مالک اس سے تعلقات نہيں رکھ سکتا اس لیے کہ عورت ایک ہی وقت میں دو مردوں کے لیے حلال نہیں ہوسکتی ۔
پانچواں :
مرد اوراس کی لونڈی کےدرمیان عمرکے بارہ میں حد فارق نہیں لیکن یہ ہے کہ لونڈی سے معاشرت اس وقت جائز ہے جب وہ اس کی طاقت رکھتی ہو ۔
چھٹا :
آدمی اورلونڈی کے تعلقات اعلانیہ ہونا ضروری ہیں نہ کہ سری طورپر ، اس لیے کہ اس اعلان پرکچھ احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا : ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کی اولاد بھی پیدا ہو ، اوریہ بھی ہے کہ ان دونوں کے بارہ مشاھدہ کرنے والے لوگوں کا شک رفع ہو ۔
ساتواں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کچھ غلام اورلونڈیوں کےمالک تھے جن میں سے چندایک یہ ہیں :
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محب زید بن حارثہ بر شراحیل رضي اللہ تعالی عنہ آپ نے اسے آزاد کردیا اوران کی شادی ام ایمن رضي اللہ تعالی عنہ سے کردی جس سے بعد میں اسامہ رضي اللہ تعالی عنہ کی پیدائش ہوئی ۔
اوران میں اسلم ، ابورافع ، ثوبان ، ابوکبشہ سلیم ، اورشقران جس کا نام صالح ہے اوررباح ، نوبی ، یسار، نوبی جسے عرنیوں نے قتل کردیا تھا ، اورمدعم ، کرکرہ ، اورنوبی یہ دونوں خیبرمیں قتل کر دیے گۓ تھے ۔
ان میں انجشہ حادی ، سفینہ بن فروخ جن کا نام مھران تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کانام سفینہ رکھا تھا ، اس لیے لیے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں سامان اٹھایا کرتا تھا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے توسفینہ ہے رضی اللہ تعالی عنہم ۔
ابوحاتم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کردیاتھا ، اوردوسروں کا کہنا ہے کہ اسے ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا نے آزاد کیا تھا ۔
ان غلاموں میں انسہ بھی ہے جس کی کنیت ابومشرح ہے ، افلح ، عبید ، طھمان جوکسیان کے نام سے جانے جاتے ہیں ، ذکوان ، مھران ، مروان ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ طھمان کے نام میں اختلاف کی بنا پر ہے ، واللہ اعلم ۔
ان میں حنین اورسندر، فضالہ یمانی ، اورمابور، خصی ، اورواقد ، اور ابوواقد ، قسام ، اور ابوعسیب ، اورابو مویھبہ بھی شامل ہیں ۔
اورعورتوں میں سلمی ، ام رافع ، اورمیمونہ بنت سعد ، خضرۃ ، رضوی ، وزینۃ ، اورام ضمیرۃ ، میمونۃ بنت ابی عسیب ، اورماریۃ و ریحانۃ شامل تھیں ۔
دیھکیں زاد المعاد لابن قیم رحمہ اللہ تعالی ( 1 / 114 – 116 ) ۔
آٹھواں :
شرعی معنی میں جس کے ساتھ غلام بنانا اوران سے اسمتمتاع وغیرہ کے جواحکام ذکر کیے گۓ ہيں کے ساتھ اس وقت غلاموں کاوجود نادر ہے اس کا سبب بہت عرصہ سے مسلمانوں کافریضہ جھاد کوترک کرنا ہے جس کی وجہ سے مسلمان دشمن کے مقابلہ میں کمزوری اورذلت واھانت کا شکار ہوچکے ہیں ، حتی کہ بہت سارے ممالک میں جن کے معاشرہ کے اکثریت مسلمانوں کی ہے وہاں بھی اقوام متحدہ کی غلامی کی ممانعت اوراسے ختم والی قرارداد 1953م نافذ ہے ۔
تو اس بنا پر آج خریدے اوربیچے جانے والےغلام کےاثبات کی کوشش کرنی ضروری ہے ، اوراسی طرح لونڈی کے غلط ترجمہ سے بھی بچنا چاہیے اس لیے کہ آج کچھ نۓمسلمان یہ سمجھتے ہيں کہ عورت کوصرف مال کی ادائيگي اوراس کے سے نفع لینے پراتفاق کرنے سے ہی غلامی حاصل ہوجاتی ہے ۔
جیسا کہ آج فسق فجور کےبازاروں میں بازاری عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اوررات گزارنے کے لیے عورت اجرت پر حاصل کی جاتی ہے اورزنا کے لیے ٹیلی فون پر ہی عورت طلب کرلی جاتی ہے ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اورآپ کواپنے دینی معاملات میں بصیرت عطا فرماۓ اوراپنی ناراضگی سے بچا کررکھے آمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب