ميں ملازم ہوں اور ميرى تنخواہ دو ہزار ريال ماہانہ ہے، سارى فيملى مجھ پر ہى اعتماد كرتى ہے اور ميں سارا خرچ اپنى تنخواہ سے ديتا ہوں، ميرى ايك بيوى اور بيٹى اور ماں باپ، اور بہنيں ہيں جن كا ميں خرچ برداشت كرتا ہوں ليكن سوال يہ ہے كہ:
ميں اپنے مال كى زكاۃ كس طرح دوں، ميرى آمدن صرف تنخواہ ہے، ليكن يہ سارى تنخواہ فيملى كے خرچ ميں صرف ہو جاتى ہے اس ليے ميں زكاۃ كب دوں ؟
بعض لوگ كہتے ہيں كہ تنخواہ فصل كى طرح ہے اوراس ميں سال كى اعتبار نہيں بلكہ جب تنخواہ ملے اسى وقت زكاۃ لازم ہو جاتى ہے ؟
ملازم كى تنخواہ كى زكاۃ
سوال: 26113
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس شخص كى ماہانہ تنخواہ ہو اور وہ اسے صرف كر ديتا ہو، اور تنخواہ ميں كچھ نہ بچے اس طرح كہ مہينہ كے آخر تك اس كى سارى رقم ختم ہو چكى ہو تو اس پر زكاۃ لازم نہيں؛ كيونكہ زكاۃ كے ليے سال مكمل ہونا ضرورى ہے ( يعنى نصاب پر سال مكمل ہونا ضرورى ہے ).
اس بنا پر سائل پر زكاۃ واجب نہيں، ليكن اگر اس نے كچھ رقم جمع كر ركھى ہو اور وہ نصاب كو پہنچ جائے اور اس پر سال مكمل ہو گيا ہو تو پھر زكاۃ ہو گى.
اور جس نے آپ كو يہ كہا ہے كہ تنخواہ كى زكاۃ فصل كى طرح ہے، اس كے ليے سال مكمل ہونے كى شرط نہيں اس كى بات غلط ہے اور صحيح نہيں.
جبكہ اكثر لوگ اس وقت تنخواہ كے ساتھ كام كرتے ہيں، اس ليے بہتر ہے كہ تنخواہ كى زكاۃ نكالنے كا طريقہ بيان كر ديا جائے.
ملازم كى تنخواہ كى زكاۃ
ملازم كى تنخواہ كے ساتھ دو حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
وہ سارى تنخواہ صرف كردے اور اس ميں سے كچھ بھى جمع نہ كرتا ہو تو اس پر كوئى زكاۃ نہيں، جيسا كہ سوال كرنے والے كى حالت ہے.
دوسرى حالت:
وہ تنخواہ ميں سے كچھ نہ كچھ رقم جمع كرتا ہو، بعض اوقات كم اور بعض اوقات زيادہ رقم بچا كر ركھتا ہو، تو اس حالت ميں اس كى زكاۃ كا حساب كيا ہو گا؟
جواب:
" اگر وہ اس كے حق كى تہہ تك پہنچنے كا حريص ہے، اور وہ صرف اتنى زكاۃ ہى مستحقين كو دينا چاہتا ہے جو اس كے مال ميں واجب ہے، تو اسے چاہيے كہ وہ اپنے حساب كتاب كا ايك شيڈول بنائے جس ميں اس طرح كى سارى آمدن كى ملكيت كے سال كى ابتداء ظاہر كرے، اور پھر وہ ہر مال پر جيسے ہى اس كا سال مكمل ہو اس كى عليحدہ زكاۃ ادا كرے.
اور اگر وہ اس كام سے راحت اور آرام چاہتا ہو اور وہ درگزر اور فياضى كا راستہ اختيار كرے، اور وہ اپنے آپ پر فقراء و مساكين كو ترجيح دينے پر اس كا دل راضى ہو؛ تو اپنى ملكيت ميں سارى نقدى كى زكاۃ اسى وقت ادا كر دے جب پہلے مال كے نصاب پر سال مكمل ہوتا ہو، اور اس ميں اجروثواب بھى زيادہ ہے، اور درجات كى بلندى ہے، اور پھر راحت بھى، اور فقراء و مساكين اور باقى مصارف زكاۃ كے حقوق كا بھى خيال ہے، اور اس سے جو زيادہ ہو وہ اس كى زكاۃ شمار ہو گى جس كا ابھى سال بھى پورا نہيں ہوا اس كى زكاۃ پہلے ہى ادا ہو جائے گى" انتہى
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 280 ).
اس كى مثال يہ ہے: ايك شخص نے محرم كى تنخواہ لى اور اس ميں سے ايك ہزار ريال جمع كر ليے، پھر صفر كى تنخواہ ميں سے اوراسى طرح باقى مہينوں كى تنخواہ بھى… تو جب دوسرے برس محرم كا مہينہ آئے گا تو وہ سارى رقم گن كر اس كى زكاۃ ادا كرے گا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات