ميں نے سنا ہے كہ مسلمان اسلام كے شروع ميں دن ميں چاليس نمازيں ادا كرتے تھے، اور پھر يہ تعداد كم كر كے پانچ كر دى گئى، اللہ تعالى كے علم كى بنا پر كہ بہت سے لوگوں پر اس كى ادائيگى مشكل ہے، كيا ايسا ہى ہوا تھا، كيونكہ اللہ تعالى ہميں اپنى رحمت دكھانا چاہتا تھا ؟
ابتدا ميں نماز كى مشروعيت كيسے تھى ؟
سوال: 26155
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز كے متعلق آپ نے جو كچھ سنا ہے وہ صحيح نہيں، بلكہ صحيح يہ ہے كہ:
اللہ تعالى نے ابتدا ـ معراج كى رات ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پرـ ميں دن اور رات ميں پچاس نمازيں فرض كى تھيں، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے رب سے تخفيف كى درخواست كرتے رہے حتى كہ دن اور رات ميں پانچ نمازيں ہو گئى، اور اللہ تعالى نے اجروثواب ميں اپنا حكم جارى كيا، نہ كہ نماز كى ادائيگى، لہذا جو كوئى بھى پانچ نمازيں ادا كرے گا اسے پچاس نمازوں كا اجروثواب حاصل ہو گا.
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ حديث بيان كيا كرتے تھے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرے گھر كى چھت كھلى جبكہ ميں مكہ ميں تھا تو وہاں سے جبريل عليہ السلام نازل ہوئے اور ميرا سينہ كھولا اور اسے زمزم كے پانى سے دھويا پھر سونے كى ايك طشترى لائے جو حكمت و ايمان سے بھرى ہوئى تھى اسے ميرے سينہ ميں انڈھيل ديا، اور پھر اسے بند كيا، اور پھر ميرا ہاتھ پكڑ كر مجھے آسمان دنيا پر لے گئے، جب ميں آسمان دنيا كى طرف گيا تو جبريل عليہ السلام نے آسمان كے دربان كو كہا دروازہ كھولو، تو اس نے كہا كون ہے؟
تو انہوں نے كہا جبريل ہوں، اس نے سوال كيا كيا تمہارے ساتھ بھى كوئى ہے؟ تو جبريل عليہ السلام نے جواب ديا جى ہاں، ميرے ساتھ محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہيں.
تو اس نے دريافت كيا: كيا اس كى طرف پيغام بھيجا گيا ہے؟ تو انہوں نے جواب ديا جى ہاں، جب اسے كھولا گيا تو ہم آسمان دنيا سے اوپر چلے گئے….
تو اللہ عزوجل نے ميرى امت پر پچاس نمازيں فرض كيں، ميں يہ لے كر واپس پلٹا حتى كہ موسى عليہ السلام كے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمايا:
اللہ تعالى نے تيرے ليے تيرى امت پر كيا فرض كيا ہے؟
تو ميں نے جواب ديا: پچاس نمازيں فرض كيں ہيں، انہوں نے كہا: اپنے رب كے پاس واپس جاؤ كيونكہ تيرى امت اس كى طاقت نہيں ركھے گى، تو ميں نے اپنے رب سے درخواست كى تو اللہ تعالى نے نصف كرديں، ميں پھر موسى عليہ السلام كے پاس آيا اور ميں نے كہا: اللہ تعالى نے نصف كر دى ہيں تو وہ كہنے لگے:
اپنے رب سے پھر مراجعہ كرو، كيونكہ تيرى امت اس كى طاقت نہيں ركھے گى، تو ميں اپنے رب كے پاس گيا تو اللہ تعالى نے نصف كر ديں، اور ميں موسى عليہ السلام كے پاس واپس آيا تو وہ كہنے لگے: اپنے رب كے پاس واپس جاؤ تيرى امت اس كى طاقت نہيں ركھے گى، تو ميں نے اپنے رب سے پھر درخواست كى تو اللہ تعالى نے فرمايا:
يہ پانچ ہيں، اور يہ پچاس ہيں، ميرے ہاں قول ميں تبديلى نہيں ہوتى، تو ميں موسى عليہ السلام كے پاس واپس آيا تو وہ كہنے لگے: اپنے رب كے پاس جاؤ، تو ميں نے كہا ميں اپنے رب سے شرماتا ہوں ….
صحيح بخارى حديث نمبر ( 342 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 163 ).
مراد يہ ہے كہ: ادائيگى تعداد كے لحاظ سے پانچ ہيں، ليكن ثواب كے اعتبار سے ان كى تعداد پچاس ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 463 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب