ميں نےدوسري رات دس بجے رمي كي اور ميں ايسا كرنے پر مجبور تھا، تو كيا مجھ پر ايسا كرنے ميں گناہ ہے يا نہيں كيونكہ ميرے ساتھ دو عورتيں اور ايك مرد تھا جو سب كے سب بيمار تھے ؟
ايام تشريق ميں ضرورت كي بنا پر رمي مؤخركرنا
سوال: 26214
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جس شخص نے گيارہ تاريخ كي رمي رات تك مؤخر كردي – اور اس كي يہ تاخير كسي شرعي عذر كي بنا پرہو – اور رات كو رمي كرلي تواس پر كوئي چيز لازم نہيں آتي .
اور اسي طرح جس شخص نے گيارہ ذوالحجہ كے دن رمي ميں تاخير كر كے رات كے وقت رمي كرلي تو اس كي يہ رمي ادا ہوجائے گي اور اس پر كچھ لازم نہيں آئے گا ليكن اسے يہ رات مني ميں ہي بسر كرنا ہوگي تاكہ وہ تيرہ ذوالحجہ كوزوال كے بعد رمي كرسكے كيونكہ وہ بارہ ذوالحجہ كوغروب شمس سے قبل مني سے نہيں نكل سكا ، ليكن احتياط اسي ميں ہے كہ آئندہ وہ دن ميں ہي رمي كرنے كي كوشش كرے .
اللہ تعالي ہي توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالي ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے .
ماخذ:
اللجنۃ الدائمہ للبحوث العلميۃ والافتاء , ديكھيں فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 11/ 281 )