ميں نماز ادا كر رہا تھا كہ دروازے كى گھنٹى بجنى شروع ہو گئى گھر ميں ميرے علاوہ كوئى اور نہيں ہے، تو مجھے كيا كرنا چاہيے، كيا اگر ميں نماز توڑ دوں تو مجھے گناہ ہو گا ؟
كوئى اہم كام پيدا ہونے پر نماز توڑنے كا حكم
سوال: 26230
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر نفلى نماز ہو تو پھر معاملہ ميں وسعت ہے، اور دروازہ كھٹكانے والا معلوم كرنے كے ليے نماز توڑنے ميں كوئى مانع نہيں.
ليكن فرضى نماز نہيں توڑنى جائز نہيں، ليكن اگر اگر كوئى اہم كام پيش آ جائے جس كے ضائع ہونے كا خدشہ ہو تو فرضى نماز بھى توڑنى جائز ہے اور اگر يہ ممكن ہو سكے كہ مرد سبحان اللہ كہہ كر اور عورت تالى بجا كر دروازہ كھٹكانے والے كو يہ بتا سكے كہ وہ نماز كى حالت ميں ہے تو ايسا كرنا نماز توڑنے سے كافى ہو گا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جسے اس كى نماز ميں كوئى چيز پيش آ جائے تو مرد سبحان اللہ كہيں اور عورتيں تالى بجائيں "
متفق عليہ، صحيح بخارى حديث نمبر ( 1234 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 421 ).
اور اگر دروازہ كھٹكٹانے والے كو عورت تالى بجا كر اور مرد سبحان اللہ كہہ كر يہ معلوم كرانا ممكن ہو سكے كہ گھر والا نماز ميں مشغول ہے تو نماز توڑنے سے بہتر اور كفائت كر جائے گا، ليكن اگر ايسا كرنے ميں كوئى فائدہ نہ ہو كيونكہ دروازہ دور ہے يا وہ اسے سن نہيں سكے گا تو پھر خاص كر ضرورت كى بنا پر خاص كر نفلى نماز توڑنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن فرض نماز اس وقت ہى توڑى جا سكتى ہے جب كوئى بہت اہم چيز پيش آ جائے يا كسى چيز كے فوت اور ضائع ہونے كا خدشہ ہو تو پھر فرضى نماز توڑنے ميں كوئى حرج نہيں، اور پھر وہ نماز دوبارہ شروع سے ہى ادا كرے گا.
سب تعريفات اللہ ہى كى ہيں. اھـ .
ماخذ:
ماخوذ از: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى ( 11 / 108 )