تجارتى سامان كى زكاۃ كس طرح ادا ہو گى، آيا وہ قيمت خريد كے مطابق ہو گى يا قيمت فروخت كے مطابق ؟
كيا تجارت كى زكاۃ قيمت خريد پر ہو گى يا كہ قيمت فروخت پر ؟
سوال: 26236
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تجارتى سامان كى زكاۃ كا حساب اس طرح ہو گا كہ: سال مكمل ہونے پر سامان كى ماركيٹ كے مطابق قيمت لگائى جائے گى ( اور غالبا دوكان ميں وہى فروخت كى قيمت ہے ) چاہے يہ قيمت خريد كے برابر ہو يا اس سے كم يا زيادہ اور پھر اس سے دس كا چوتھائى حصہ يعنى اڑھائى فيصد زكاۃ ادا كرے گا.
ديكھيں: رسالۃ فى الزكاۃ للشيخ ابن باز ( 11 ) رسالۃ زكاۃ العقار للشيخ بكر ابو زيد ( 8 ).
اور يہى كمال عدل ہے، كيونكہ سال مكمل ہونے كے وقت اس كى قيمت خريدارى كى قيمت سے مختلف ہو سكتى ہے يا كم يا زيادہ.
پھر اگر تاجر تھوك يعنى ہول سيل كا كاروبار كرتا ہو تو وہ ہول سيل كى قيمت لگائے گا، اور اگر وہ پرچون كا كاروبار كرتا ہے تو وہ پرچون كى قيمت لگائے گا.
الشرح الممتع ( 6 / 146 ).
اور اگر وہ ہول سيل اور پرچون دونوں كاروبار اكٹھا كرتا ہے تو وہ قيمت لگانے ميں كوشش كرے اور ہول سيل فروخت كرنے والے مال كا اندازہ لگا اس كى قيمت ہول سيل ريٹ كے مطابق لگائےاور جو پرچون فروخت كرتا ہےاس كى قيمت پرچون ريٹ كے مطابق لگائے اور اس كى زكاۃ نكالے.
اور اگر وہ اس حالت ميں احتياط كرتے ہوئے اتنى زكاۃ نكالے جو يقينى واجب كردہ زكاۃ سے زيادہ ہو تو يہ افضل ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ يہ اندازہ لگائے كہ وہ يہ سامان ہول سيل فروخت كرے گا اور پھر اسے وہ پرچون فروخت كر دے.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم والا ہے، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد