گزارش ہے كہ نماز اوابين كى كيفيت بيان كريں، اور اس كى كيا دليل ہے وہ بھى بيان فرمائيں، كيونكہ اس نماز كے متعلق ميں كسى حديث كى تحديد نہيں كر سكتا، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
نماز اوابين
سوال: 2626
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صلاۃ اوابين چاشت كى نماز يعنى صلاۃ ضحى ہے، جو سورج اونچا ہونے اور تقريبا ظہر كے قريب دو يا چار يا چھ يا آٹھ ركعت پڑھى جاتى ہے، اور اسے گرمى ہونے تك مؤخر كرنا افضل ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قباء والوں كى طرف گئے تو وہ لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” نماز اوابين اس وقت ہے جب اونٹ كے بچے كے پاؤں ريت كے گرم ہونے سے جليں”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1238 ).
اور مسند احمد كى روايت ميں ہے كہ:
زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سورج نكلنے كے بعد مسجد قباء آئے يا مسجد قباء ميں داخل ہوئے تو لوگ نماز ادا كر رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” نماز اوابين اس وقت ادا كرتے تھے جب اونٹ كے بچوں كے قدم گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے سے جليں ”
اور مسلم كى ايك روايت ميں ہے كہ:
قاسم شيبانى زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ زيد بن ارقم رضى اللہ تعالى عنہ نے كچھ لوگوں كو چاشت كى نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو كہنے لگے:
كيا انہيں علم نہيں كہ اس وقت كے علاوہ نماز افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
” نماز اوابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1237 ).
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: ” نماز اوابين اس وقت ہے جب گرمى كى شدت سے ريت گرم ہونے كى بنا پر اونٹ كے بچوں كے قدم جليں” ترمض تاء اور ميم پر زبر ہے، اور الرمضاء: اس ريت كو كہتے ہيں جو سورج كى وجہ سے گرم ہو چكى ہو، يعنى جب اونٹ كے چھوٹے بچوں كے قدم جليں ( تو وہ زمين گرم ہونے كى بنا پر اپنے پاؤں اٹھائے اور زمين پر ركھے).
اور الاواب: مطيع كو كہتے ہيں.
اور ايك قول يہ ہے كہ: اطاعت كى طرف پلٹنے والے كو كہتے ہيں.
اور حديث ميں اس وقت نماز كى فضيلت بيان ہوئى ہے، اور چاشت كى نماز كا افضل وقت يہ ہے، اگرچہ يہ طلوع شمس سے ليكر زوال تك ادا كرنى جائز ہے.
شرح مسلم للنووى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد