كيا جماع كے بعد غسل ميں بال دھونے واجب ہيں تا كہ غسل صحيح ہو ؟
كيا غسل جماع ميں بال دھونے واجب ہيں ؟
سوال: 2648
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
غسل جنابت ميں بال دھونے واجب ہيں، اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم غسل كرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے دائيں ہاتھ سے بائيں پر پانى ڈال كر اپنى شرمگاہ دھوتے، پھر نماز جيسا وضوء كرتے، پھر پانى ليكر اپنى انگلياں بالوں كى جڑوں تك پہنچاتے حتى كہ جب ديكھتے كہ وہ تر ہو گئے ہيں تو اپنے سر پر تين چلو بھر كر ڈالتے، اور پھر سارے جسم پر پانى بہاتے، پھر اپنے پاؤوں دھوتے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 474 ).
بلوغ المرام كى شرح ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس ميں يہ دليل بھى ہے كہ غسل جنابت ميں پانى بالوں كے نيچے تك پہنچانا واجب ہے، چاہے بال بہت زيادہ ہى كيوں نہ ہوں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى انگلياں بالوں ميں داخل كر كے بالوں كى جڑوں كو تر كرنے كے بعد تين چلو پانى ڈالا كرتے تھے. اھـ
ديكھيں: شرح بلوغ المرام للشيخ ابن عثيمين صفحہ نمبر ( 399 ).
اس حكم ميں مرد و عورت كا كوئى فرق نہيں، صرف اتنا ہے كہ علماء كرام نے عورت كے ليے غسل جنابت اور حيض ميں بالوں كى ميڈياں كھولنے كے متعلق كلام كى ہے، اور راجح يہى ہے كہ بالوں كى ميڈياں كھولنا ضرورى نہيں اس كى دليل ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:
" وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے سر كى ميڈياں بہت شديد اور زيادہ ہيں كيا ميں غسل جنابت كے ليے انہيں كھولا كروں ؟
اور ايك روايت ميں حيض كے غسل كے الفاظ بھى ہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں، بلكہ تيرے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ اپنے سر پر تين چلو پانى ڈال ليا كرو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.
اور اس كے دلائل ميں وہ روايت بھى شامل ہے جو عبيد بن عمير رحمہ اللہ سے ثابت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو علم ہوا كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عورتوں كو غسل كرتے وقت اپنے سر كے بال كھولنے كا حكم ديتے ہيں تو وہ كہنے لگيں:
تعجب ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عورتوں كو غسل كرتے وقت بال كھولنے كا حكم ديتے ہيں، وہ انہيں سر مونڈنے كا حكم كيوں نہيں ديتے، ميں اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ہى برتن سے غسل كيا كرتے تھے اور ميں اپنے سر پر تين چلو پانى ڈالنے سے زيادہ كچھ نہيں كيا كرتى تھى "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 331 ).
بلوغ المرام كى شرح ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث عورت كے غسل كے متعلق ہے كہ آيا وہ اپنے سر كى ميڈياں كھول كر اس كے نيچے دھوئے گى يا نہيں ؟
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا كہ وہ انہيں نہيں كھولےگى، كيونكہ اس ميں مشقت ہے، اور خاص كر غسل جنابت ميں.
اور پھر اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، بعض اہل علم كہتے ہيں كہ عورت كے ليے حيض كے غسل ميں بال كھولنے واجب ہيں، ليكن وہ غسل جنابت ميں بال نہيں كھولےگى، كيونكہ غسل جنابت اور حيض كے غسل ميں فرق يہ ہے كہ غسل جنابت بار بار كرنا پڑتا ہے اس ليے اسے صبح كے وقت بال كھولنے اور شام كو بالوں كى كنگھى كرنے ميں مشقت ہے، يا شام كے وقت كھولنے اور صبح كنگھى كرنا، ليكن حيض كے غسل ميں ايسا نہيں كيونكہ وہ عام طور پر مہينہ ميں ايك بار كرنا ہوتا ہے، اس ليے انہيں كھولنے ميں اس كے ليے سہولت ہے… واللہ تعالى اعلم.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد