میرے والد صاحب مجھے رقم مخصوص مقاصد کے لیے دیتے ہیں، اور مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگاتے کہ میں اسے کہیں اور خرچ نہ کروں، لیکن بسا اوقات جب مجھے ضرورت ہو اور میرے پاس اپنی جمع پونجی بھی نہ ہو تو میں اسی رقم کو اپنی مرضی کی جگہ خرچ کر لیتا ہوں تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟ تو کیا والد صاحب کی دی ہوئی رقم میں سے جو میں کھا لیتا ہوں وہ حرام ہے؟ واضح رہے کہ میرے والد کو اس کا علم نہیں ہوتا۔
والد صاحب رقم مخصوص کام میں لگانے کے لیے دیتے ہیں، تو کیا بیٹا کہیں اور خرچ کر سکتا ہے؟
سوال: 265835
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر کسی کو کوئی بھی چیز کسی خاص جگہ استعمال کے لیے دی جائے تو وہ اسے کسی اور جگہ استعمال نہیں کر سکتا، اگر کرنا چاہے تو اجازت لینا ہو گی؛ کیونکہ یہ مقید ہبہ ہے، اور یہاں قید کا اس وقت تک خیال رکھا جائے گا جب تک دینے والے کے مقصد کا بعینہٖ علم نہ ہو جائے کہ یہی اس کا مقصد تھا، اور یہ یقین ہو جائے کہ عطیہ کنندہ کسی اور جگہ استعمال کرنے پر ناراض نہیں ہو گا۔
جیسے کہ الشیخ زکریا انصاری رحمہ اللہ کی کتاب: "أسنى المطالب" (2/ 479) میں ہے کہ:
"اگر کوئی آپ کو درہم دے اور کہے: ان سے اپنے لیے عمامہ خرید لو، یا حمام میں جا کر نہا لو، یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہے تو پھر عطیہ کنندہ کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسی مد میں ہی خرچ کرنا لازم ہے۔ یہ اس لیے کہ عطیہ دینے والے نے اس کا سر ننگا دیکھا تو چاہا کہ عمامہ کے ذریعے سر ڈھانپ لے، یا پراگندہ بال اور جسم دیکھا تو جسم کی صفائی ستھرائی عطیہ دینے والا کا مقصود تھا۔ اور اگر دینے والے کا ایسا کوئی مقصد نہ ہو بلکہ روٹین میں اس نے رقم دے دی تو پھر اسی خاص جگہ پر خرچ کرنا متعین نہیں ہو گا، بلکہ لینے والا اس رقم کا مالک بن گیا ہے وہ جہاں بھی چاہے اسے خرچ کر سکتا ہے۔" ختم شد
اسی طرح علامہ علیش مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مکاتب غلام کو مکاتبت کی رقم ایک جماعت مل کر دے یا کوئی اکیلا دے، اور غلام وہ رقم آقا کو دے دے، اور اس رقم میں سے کچھ بچ جائے تو: اگر معاونت کرنے والوں نے یہ رقم غلام کو بطور صدقہ نہیں دی تھی بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ غلام ،غلامی سے آزاد ہو جائے، یا ان کا کوئی مقصد نہیں تھا تو معاونت کرنے والے چاہیں تو بقیہ رقم واپس لے سکتے ہیں اور لے کر آپس میں حصے کر لیں گے۔ اور اگر معاونت کی رقم آقا کو دینے کے بعد بھی آزاد نہیں ہو پاتا تو معاونت کرنے والے آقا سے مکاتبت کی مد میں وصول کردہ مال واپس لینے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاونین نے مکاتب غلام کو رقم دے کر غلام پر صدقہ کرنے کی نیت کی تھی تو پھر معاونین بچی ہوئی رقم غلام سے اور کمی رہ جانے کی صورت میں مالک کی وصول کردہ رقم واپس نہیں لے سکتے۔
مکاتب غلام کی آزادی کے سلسلے میں ایک قوم مالی معاونت کرے، اور غلام اس میں سے اپنی قیمت کی بقیہ اقساط ادا کر دے، پھر معاونت کی کچھ رقم بچ جائے تو اگر قوم نے مالی معاونت اس کی آزادی کے لیے کی تھی غلام کو بطور صدقہ نہیں دی تھی تو غلام کو چاہیے کہ ان سب کو برابر حصوں میں اضافی رقم واپس کر دے، یا وہ سب اس غلام کو بقیہ رقم کا مکمل مالک بنا دیں۔ اور اگر معاونت کی رقم سے مکاتبت کی اقساط مکمل نہ ہوں تو [مکاتبت کی اقسام ادا کرنے کا وقت گزر جانے پر۔ مترجم]آقا نے جو کچھ وقت مقررہ سے پہلے وصول کیا تھا وہ سب آقا کا ہو جائے گا چاہے وہ مکاتب غلام نے خود کمایا ہو یا اس پر صدقہ کیا گیا ہو۔
لیکن اگر مکاتب غلام کی معاونت اس لیے کی گئی کہ مکاتبت کی رقم ادا کر دے، لیکن رقم مطلوبہ مقدر سے کم تھی، تو اب اس مکاتب غلام کے معاونین میں سے ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ اپنی دی ہوئی رقم واپس لے لے، الا کہ وہ رقم مکاتب کو معاف کر دی جائے تو یہ رقم مکاتب کی ہو جائے گی۔ لیکن اگر انہوں نے مکاتب غلام کو یہ رقم بطور صدقہ دی تھی مکاتبت سے آزادی کے لیے نہیں دی تھی اس رقم کے مطلوبہ مقدار میں نہ ہونے کی صورت میں یہ آقا کی ہو جائے گی۔۔۔ اس کے بعد علامہ جزولی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کوئی بھی شخص جسے مال اس کے علم، نیکی یا غربت کی وجہ سے دیا گیا، لیکن حقیقت میں اس شخص میں وہ علم، یا نیکی یا غربت نہیں تھی تو اس پر لازم ہے کہ وہ یہ رقم وصول نہ کرے، اور اگر وصول کر لی ہے تو اسے واپس کر دے، اس کے لیے اس رقم کو کھانا حرام ہے، اور اگر کھا لیا تو اس نے حرام کھایا ہے۔" ختم شد
"منح الجليل" (9/475)
چنانچہ اگر آپ کے والد نے آپ کو رقم مخصوص ہدف کے لیے دی ہے، تو آپ رقم کسی اور جگہ خرچ نہیں کر سکتے، اگرچہ انہوں نے آپ کو کہیں اور خرچ کرنے سے منع نہیں کیا۔
اور اگر آپ کے والد آپ کی رہنمائی کرتے ہیں کہ تم اس طرح سے کر لو، اور آپ اس کی جگہ کہیں اور لگا دیتے ہیں ، اور والد کو علم ہونے پر وہ راضی بھی رہتے ہیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس لیے والد صاحب کی طرف سے ملنے والی اس رقم کو خرچ کرتے ہوئے آپ احتیاط سے کام لیں، چنانچہ آپ کسی ایسی جگہ خرچ نہ کریں جہاں آپ کو انداز ہ ہو کہ آپ کے والد ناراض ہوں گے، یا آپ کو شک ہو کہ والد صاحب راضی ہوں گے یا نہیں!
چنانچہ جب آپ کو اس معاملے میں شک گزرے تو آپ کو جن مقاصد کے لیے رقم دی گئی ہے انہی کی پابندی کریں، یا ان سے کہیں اور خرچ کرنے کے بارے میں پوچھ لیں اور اجازت لے لیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب