میرا سوال شادی کے متعلق ہے میرا ایک بہت ہی عزيز دوست اوربھائي اپنی مامی سے شادی کرنے والا ہے ، کیونکہ میرے دوست کا ماموں اپنی بیوی سے انتہائي برا سلوک روا رکھتا ہے جس کا اس کے دونوں بچوں پر بہت ہی غلط قسم کا اثر ہوا ہے اوراب وہ اپنےخاوند سے طلاق لیے کر میرے دوست سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔
میرا دوست اس عورت اوراس کے دونوں بچوں کا تعاون کرنا چاہتا ہے اورجوکچھ انہیں سختی اورمصیبت اس کے ماموں سے پہنچی ہے وہ اس کے عوض میں اچھا سلوک کرنے کی خواہش ہے تا کہ وہ اسے بھول جائيں تومیرا سوال یہ ہے کہ :
1 – کیا شریعت اسلامیہ میں یہ شادی جائز ہے ؟
2 – میرے دوست کے ان ( ماموں زاد )دوبچوں کے بارہ میں کیا واجبات اورحقوق ہوں گے ؟
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس اشکال کا کافی وشافی جواب دیں ، اگریہ شادی شرعی احکام سے متفق نہیں تومیں اس روک سکتا ہوں ، آپ اس سوال کا جواب جلد عنائت فرمائيں آپ کی مہربانی ہوگی ۔
مامی سے شادی کرنے کاحکم
سوال: 2661
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جب کسی شخص کا ماموں اپنی بیوی کو طلاق بائن دے کر اپنے سے علیحدہ کرے تو وہ شخص اپنی مامی سے نکاح کرسکتا ہے ، کیونکہ مامی حرام کردہ عورتوں میں سے نہیں اس لیے اس سے نکاح میں کرنے کوئي حرج نہیں ۔
لیکن بھانجے کے لیے اپنی مامی سے کسی بھی قسم کا حرام تعلق قائم کرنا صحیح نہيں بلکہ ایسا کرنا حرام ہے ، ہوسکتا ہے کہ شیطان ان دونوں کو برائي کسی اچھی شکل میں دکھائے تواس سےبچنا ضروری ہے ، اوراسی طرح بھانجے کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ وہ اسے اپنے ماموں سے متنفر کرے تا کہ وہ طلاق دے تواس سے وہ خود شادی کرلے ۔
بلکہ اسے تو ان دونوں کے مابین اصلاح اورخیر وبھلائي کا کردار ادا کرنا چاہیے نہ کہ نفرت پھیلانے اور گھرانے کوتباہ کرنے والے کا ، اصل مصلحت تویہ یہی ہے کہ اولاد اپنے والد کے ساتھ ایک ہی گھرانے اورخاندان میں رہیں لیکن جب شرعی مصلحت کا تقاضہ اس کے خلاف ہو تو پھران میں علیحدگي ہوسکتی ہے ۔
اورجب کوئي ناپسندیدہ چيز پیدا ہوجائے اور ان دونوں کے مابین طلاق تک معاملہ جاپہنچے اوروہاں اس کے بارہ میں کوئي کسی قسم کا شک وشبہ بھی نہ ہو تو پھر اس طلاق شدہ مامی سے نکاح کرنے میں کوئي حرج نہیں ۔
اورجب ماموں کی اولاد اس کی پرورش میں آجائيں توان سے اچھا اوراحسن سلوک کرنا ہوگا تا کہ صلہ رحمی قائم رہے اورجب وہ ان کی پرورش میں اخلاص نیت کرے گا تواسے اللہ تعالی سے اجر عظیم حاصل ہوگا ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد