ایک لڑکی کی جسمانی ساخت پیدائشی طور پر صحیح نہیں ہے، ممکن ہے کہ یہ جینیاتی مسئلہ ہو، یہ لڑکی اپنی جسمانی بیماری کی ماہیت جاننے کیلیے میڈیکل ٹیسٹ کروانا چاہتی ہے؛ تا کہ معلوم ہو سکے کہ پیدا ہونے والی اولاد میں یہ مرض منتقل ہو سکتا ہے یا نہیں، اور اگر یہ مسئلہ اسے دیگر بیماریوں کا نشانہ بننے کا خطرہ لاحق کر سکتا ہو تو پھر پیشگی چیک اپ کروانا لازمی ہو گا، تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اگر جینیاتی خلل پایا گیا تو پھر اس لڑکی کے لیے شادی کرنے اور پھر بچے پیدا کرنے کا کیا حکم ہو گا؟ واضح رہے کہ بیماری کے موروثی انداز میں منتقل ہونے کی بات یقینی طور حتمی نہیں ہوتی، تاہم اگر اسے اللہ تعالی موروثی بیماری بنانا چاہے تو پیدا ہونے والے بچے میں ذہنی یا جسمانی بہت زیادہ عیوب بھی پیدا ہو سکتے ہیں تو کیا ایسی صورت میں یہ بات بھی ظاہری اسباب اپنانے کے زمرے میں آئے گی کہ شادی ہی نہ کی جائے یا افزائش نسل نہ ہو؟ نیز یہ لڑکی آنے والے رشتے کو بتلا دے کہ جسمانی خرابی اس میں موجود ہے؟ نیز انہیں بیماری کے موروثی بن جانے کا خدشہ بتلانے کا کیا حکم ہو گا؟
جینیاتی مرض میں مبتلا لڑکی سے شادی کا حکم اور ناقص الخلقت بچے کی پیدائش کے اندیشے پر بچے پیدا نہ کرنا۔
سوال: 267083
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مرض کی ماہیت اور مرض کے موروثی طریقے سے آگے منتقل ہونے یا دیگر بیماریوں کا باعث بننے کو جاننے کیلیے جینیاتی ٹیسٹ کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے اور نقصانات کم کرنے کا باعث ہے، نیز علاج معالجہ بھی شرعی طور پر جائز ہے۔
شادی سے قبل چیک اپ سے متعلق جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (104675) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
فرض کریں کہ جینیاتی مسئلہ موجود ہے تو تب بھی اس لڑکی کے لیے شادی کرنا جائز ہے، چاہے موروثی طور پر بیماری منتقل ہونے کا خطرہ بھی ہو، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بیماری سے متعلق آگاہ کر دیا جائے۔
شادی کرنا اس لیے جائز ہے کہ: بنیادی طور پر شادی کرنا سب کا حق ہے اور دلائل اسے جائز کہتے ہیں بلکہ اس کے لیے ترغیب بھی دلاتے ہیں تا کہ دو طرفہ عفت ، سکینت اور محبت حاصل ہو۔
بچے پیدا کرنا اس لیے جائز ہے کہ: افزائش نسل نکاح کے بنیادی مقاصد میں سے ہے، جبکہ پیدا ہونے والے بچے کو بیماری لاحق ہونے کا محض خدشہ افزائش نسل کے لیے مانع نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ بیماری کا لگنا یا سلامت ہونا اس کا علم اللہ تعالی کو ہے تو اس لیے عین ممکن ہے کہ بچہ صحیح سالم پیدا ہو جائے۔
لیکن اگر بچے کی پیدائش سے متعلق غالب گمان یہی ہو کہ ناقص الخلقت ہو گا تو میاں بیوی دونوں مل کر بچے بند کروانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، نیز اگر بچہ یقینی طور پر ناقص الخلقت ہو تو ساقط بھی کروا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ بچے میں روح پھونکے جانے سے پہلے ساقط کروایا جائے، یعنی حمل ٹھہرنے کے 120 دن گزرنے سے پہلے ۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (263741) کا مطالعہ کریں۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"میں الحمدللہ، مسلمان خاتون ہوں ، اللہ تعالی کی طرف سے مجھ پر عائد نماز، روزہ، زکاۃ وغیرہ پر مشتمل اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھاتی ہوں، لیکن جب میرے خاوند تپ دق کی بیماری میں مبتلا تھے تو میں نے اپنے بچے بند کروا دئیے تھے اور یہ عرصہ دس سال پر محیط تھا، پھر اس کے بعد مجھے ماہواری آنا مکمل طور پر بند ہو گئی، تو جو کچھ میں نے کیا اس میں اللہ کی ناراضی اور غضب کا باعث بننے والا کوئی کام ہے؟ میں نے بچے اس لیے بند کروائے تھے کہ میرے بچے آدھے دھڑ کے فالج زدہ پیدا ہوتے تھے، کچھ فوت ہو جاتے اور کچھ اسی بیماری کے ساتھ زندہ رہتے ، مجھے اس بارے میں بتلائیں، اللہ تعالی آپ کو جزا سے نوازے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر آپ نے نسل بندی خاوند کی رضا مندی سے کروائی تھی تو اس میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے، لہذا خاوند کی رضا مندی شامل ہونے کی صورت میں ہمیں امید ہے کہ آپ پر کوئی حرج نہیں ہوگا، لیکن اگر یہ کام خاوند کی اجازت یا رضا مندی کے بغیر کیا ہے تو پھر آپ کو توبہ استغفار کرنا چاہیے اور جو کچھ ماضی میں ہوا اس پر اللہ سے معافی مانگیں" ختم شد
فتاوى نور على الدرب (21/ 421)
نیز ہونے والے منگیتر کو بھی اس بیماری کے بارے میں بتلانا ضروری ہے؛ کیونکہ راجح موقف یہی ہے کہ کوئی بھی ایسا وصف جو ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہو یا افزائش نسل پر اثرات ڈالے، یا کوئی ایسی منفی بات جو لڑکے یا لڑکی میں پائی جاتی ہو تو یہ ایک عیب ہے اور اسے بتلانا ضروری ہے ۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (111980) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لیکن اگر لڑکا عیب معلوم ہو جانے کے باوجود بھی شادی پر رضا مند ہو جائے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے بیماری کسی بھی قسم اور نوعیت کی ہو۔
اس کے متعلق آپ سوال نمبر: (133329) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہماری بہن کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ، انہیں بیماری سے بچائے، انہیں نیک اولاد اور اچھا خاوند عطا کرے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات