میں نے ایک دکان خریدی ہے جس میں پہلے کرائے دار بیٹھا ہوا تھا، اس کا کرائے کا معاہدہ بھی ختم ہو چکا تھا، مالک نے کرائے دار کو معاہدہ ختم ہونے سے 3 ماہ قبل آگاہ کیا کہ اگر وہ دکان خریدنا چاہتا ہے تو خرید لے، مالک نے کرائے دار کا کافی خیال رکھا اور اسے مہلت دیتا گیا، اور کئی بار بات بنتے بنتے خراب ہوئی، جب مجھے دکان کے بارے میں علم ہوا تو میں نے جا کر دکان کا سودا کر لیا، اس وقت دکان کے مالک نے دکان کو خالی کروا لیا تھا، اور اس پر اپنا تالا بھی لگا لیا تھا، تاہم مذکورہ کرایہ دار کا کچھ سامان ابھی باقی تھا جو اس نے جلد ہی وہاں سے اٹھا لینا تھا، میں نے جس وقت دکان کی چابی لی تو اس وقت بھی سامان موجود تھا، اور مذکورہ کرایہ دار سے یہ بات ہوئی کہ اب رات کا کافی وقت گزر گیا ہے لہذا وہ صبح سامان لے جائے گا، یہ بات کسی کے سامنے نہیں ہوئی تھی بلکہ ہماری آپس میں مفاہمت تھی۔ اب کرائے دار کو کچھ لوگ اکسا رہے ہیں کہ سامان نہ اٹھائے اور دکان ہی خرید لے، حالانکہ مالک نے کئی بار اسے خریدنے کی پیش کش کی تھی لیکن بات نہ بنی، اب جیسے ہی میں نے دکان خریدی تو کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بیع پر بیع ہے، یا قیمت پر قیمت لگانا ہے؛ کیونکہ ابھی کرایہ دار سے بات چل رہی تھی، لہذا تم مہینے کے آخر تک انتظار کرو، حالانکہ اس بات کے بہت لوگ گواہ ہیں جو کہتے ہیں کہ کرایہ دار نے مالک کی پیش کش کو قبول نہیں کیا اسی لیے مالک نے کسی اور کو فروخت کر دی! اب مجھے بتلائیں کہ میرے لیے کیا شرعی حکم ہے؟
مسلمان کی بیع پر بیع اور قیمت پر قیمت لگانے کی وضاحت
سوال: 269623
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا حرام ہے، یا اس کے قیمت لگانے پر قیمت لگانا بھی حرام ہے، کیونکہ صحیحین کی روایت کے مطابق سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے) اس حدیث کو امام بخاری: (2139) اور مسلم : (1412)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم: (141) میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مومن ، مومن کا بھائی ہے۔ چنانچہ کسی مومن کے لیے اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا حلال نہیں ہے، نہ ہی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرنا جائز ہے حتی کہ وہ چھوڑ دے۔)
ایسے ہی صحیح مسلم: (1408) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کا پیغام نہ بھیجے، نہ ہی اپنے بھائی کے قیمت لگانے پر قیمت لگائے)
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"بیع پر بیع کی مثال یہ ہے کہ: مدت خیار میں کوئی کسی خریدار سے کہے: یہ خریدی ہوئی چیز تم واپس کر دو، میں تمہیں یہی چیز اس سے بھی سستے داموں میں دیتا ہوں، یا اس سے اچھی چیز اسی قیمت میں دیتا ہوں۔ یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہے۔ تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح کوئی دکاندار کو مدت خیار میں کہے: یہ سودا کینسل کر دو، میں تمہیں اس سے زیادہ دام دیتا ہوں، یا ایسی ہی کوئی بات کہے۔
قیمت پر قیمت لگانے کا مطلب یہ ہے کہ: دکاندار اور خریدار دونوں لین دین پر راضی ہو گئے ہیں، لیکن ابھی انہوں نے لین دین نہیں کیا، تو ایسی صورت میں دکاندار سے کوئی کہے: میں تم سے خریدتا ہوں، تو یہ بھی اس وقت حرام ہے جب قیمت طے ہو چکی ہو۔" ختم شد
شرح مسلم: (10/ 158)
مدت خیار کی شرط لگانا علمائے کرام کے دو موقفوں میں سے ایک موقف ہے۔
جبکہ راجح یہ ہے کہ مدت خیار ہو یا نہ ہو بیع پر بیع کرنا منع ہے، اس لیے اپنے دینی بھائی کی بیع پر بیع کرنا جائز نہیں ہے، یا پھر عقد پورا ہونے کے بعد یا اجرت طے ہونے کے بعد کوئی اور اجرت لگائے؛ کیونکہ اس سے دل میں پشیمانی پیدا ہو گی اور دل میں منفی خیالات آئیں گے، اور عین ممکن ہے کہ انسان عقد فسخ کرنے کے لیے حیلے بازی کرنے لگے۔
مزید کے لیے آپ دیکھیں الشرح الممتع از شیخ ابن عثیمین: (8/204)
دوم:
آپ کی ذکر کردہ صورت میں بیع پر بیع نہیں ہے؛ کیونکہ سوال میں مذکور کرایہ دار کے ساتھ معاملہ طے ہی نہیں ہوا تھا۔
نہ ہی قیمت پر قیمت لگانا لازم آتا ہے؛ کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ بائع اور مشتری کا کسی قیمت پر متفق ہو جانا ہوتا ہے، یعنی فریقین کسی قیمت پر متفق ہو جائیں اور کوئی آ کر کہے کہ میں اس سے زیادہ قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں۔ اور صورت مسئولہ میں ایسا نہیں ہوا۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی اتنی دیر تک خریداری کو حتمی شکل نہ دے تو اسے یہی سمجھا جاتا ہے وہ خریدنا ہی نہیں چاہتا، تو ایسی صورت میں بائع کو انتظار کرنے کا مکلف نہیں بنانا چاہیے، نہ ہی اس کچے خریدار کی وجہ سے کسی دوسرے کو خریداری سے روکا جائے گا ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
دکان کی خریداری کی وجہ سے آپ پر کچھ نہیں ہے، نہ ہی آپ کو لوگوں کی باتوں میں آ کر مہینہ بھر انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ: اگر بائع کرایہ دار کو دکان فروخت کرنے سے انکار کر دیتا ہے، یا کرایہ دار کی لگائی ہوئی قیمت کو مسترد کر دیتا ہے تو اب کسی پر بھی حرج نہیں ہے کہ وہ خریداری کے لیے آ گے آئے یا قیمت لگائے، اس صورت میں بائع پر کرایہ دار کے حق میں کچھ بھی نہیں ہو گا۔
بیع پر بیع اور قیمت پر قیمت اس وقت ہوتی ہے جب فریقین خریداری کو حتمی شکل دینے کی طرف جا رہے ہوں، دونوں راضی ہوں، اور وہ اسے جلد ہی کنفرم کرنے والے ہوں، جیسے کہ پہلے اس کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔
اب یہاں دکان آپ نے خرید لی ہے، اب اگر یہ کرایہ دار اس دکان کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حرام عمل ہے، اور اس پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کر رہا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب