میں نے الشبکہ الاسلامیہ نامی ویب سائٹ پر متعدد فتاوی پڑے ہیں کہ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر استنجا کرتے ہوئے پانی آلہ تناسل میں داخل ہو کر نکل آئے تو یہ پانی نجس ہے اور اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اس کہ وجہ سے میں بہت پریشان ہوں؛ کیونکہ نہاتے ہوئے یا استنجا کرتے ہوئے میں نے غور کیا ہے کہ پانی پیشاب کی نالی کے منہ میں داخل ہو کر وہیں رک جاتا ہے اور پھر وہاں سے باہر نکل آتا ہے، یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ یہ کوئی شک کی بات نہیں ہے بلکہ دس لاکھ فی صد یقینی معاملہ ہے، اس پر میں نے کچھ طبی ماہرین سے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ یہ پانی پیشاب کی نالی میں داخل نہیں ہوتا، یعنی صرف نالی کے منہ تک رہتا ہے اندر بالکل نہیں جاتا، پھر میں نے یہ بھی غور سے دیکھا ہے کہ ہمیشہ پیشاب کی نالی کا اندر والا حصہ رطوبت سے تر رہتا ہے، حتی کہ ایسے اوقات میں بھی جب میں استنجا یا غسل نہ کروں! اس حوالے سے لمبی چوڑی تحقیق اور طبی ماہر سے گفتگو کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پیشاب کی نالی کا اندرونی حصہ طبعی طور پر رطوبت تسلسل کے ساتھ خارج کرتا رہتا ہے تا کہ نالی خشک نہ ہو اور اس میں رطوبت باقی رہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے منہ کا اندرونی حصہ ہمیشہ تر رہتا ہے۔ تو مجھے اس رطوبت کے متعلق پریشانی بالکل ختم ہو گئی کیونکہ یہ رطوبت پیشاب کی نالی سے باہر نہیں نکلتی۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ یہ رطوبت پیشاب کی نالی میں موجود ہے یعنی ایسی جگہ ہے جہاں سے پیشاب کی نجاست گزرتی ہے، اور نہاتے وقت یا استنجا کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ پانی پیشاب کی نالی کے دہانے میں داخل ہوتا ہے اور پھر پیشاب کی نالی میں موجود رطوبت سے بھی ملتا ہے، تو میرے اس حوالے سے دو سوالات ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ: ایسے پانی کا کیا حکم ہے جو پیشاب کی نالی کے سرے پر موجود ایسی رطوبت سے مل گیا ہے جس کے ساتھ سے پیشاب گزرا ہےکیا وہ نجس ہے یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ: کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آلہ تناسل کے سوراخ میں داخل ہو کر نکل جانے والا پانی وضو نہیں توڑتا؛ کیونکہ یہ پانی آلہ تناسل کے اندر داخل نہیں ہوا محض ذکر کی سپاری میں سوراخ تک ہی محدود رہا ہے! دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ : وضو ٹوٹنے کے لیے پانی کا آلہ تناسل کے اندر جا کر خارج ہونا معتبر ہے یا اگر سپاری کے سوراخ میں ہی پانی داخل ہو کر نکل جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟
بول و براز کے راستے پانی داخل ہو کر خارج ہو جائے تو کیا حکم ہے؟
سوال: 272976
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر کوئی شخص اپنے آلہ تناسل میں پانی، یا تیل وغیرہ ڈالے اور پھر یہ پانی یا تیل خارج ہو جائے تو یہ نجس ہو گا، اور اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/ 125)میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنے آلہ تناسل میں تیل کے قطرے ٹپکائے اور پھر یہ تیل باہر نکل آئے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ کیونکہ یہ تیل پیشاب کے راستے سے باہر آیا ہے، اور چونکہ اس تیل میں نجس رطوبت بھی شامل ہو چکی ہے اس لیے اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے صرف رطوبت کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جانا تھا۔" ختم شد
یہ اس صورت میں ہے جب پانی آلہ تناسل کی اندرونی جانب تک پہنچ جائے اور پھر جب نکلے تو اسے پیشاب کے راستے سے نکلنے والا پانی کہا جائے۔
لیکن اگر پانی سپاری کے سوراخ پر ایسی حالت میں پڑے کہ سوراخ پاک ہو ، اور پھر پانی اندر بھی نہ جائے تو یہ پانی اپنی اصلی حالت میں باقی رہے گا۔
آپ کی ذکر کردہ بات وسوسے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ آلہ تناسل کے اندر تک پانی داخل ہو جائے یہ بہت مشکل ہے، ہاں اگر کوئی شخص عمداً پانی داخل کرے تو یہ اور بات ہے!!
اور اگر فرض کر بھی لیں کہ ایسا ہو جاتا ہے تو وہ نجاست دھونے سے صاف ہو جائے گی، آپ پانی سے استنجا کرتے ہوئے اپنی سپاری کو دھو لیں اور اس کے سوراخ کو مت چھیڑیں، اگر آپ اس سوراخ کو خود سے چھیڑتے ہیں تو یہ آپ کو مزید وسوسوں میں مبتلا کر دے گا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (21/106) میں کہتے ہیں:
"آلہ تناسل کو دونوں انگلیوں کے درمیان لے کر اچھی طرح نچوڑتے ہوئے چیک کرنا یا اسی طرح کا کوئی اور کام کرنا بالکل غیر ضروری اور بدعت ہے، یہ نا تو واجب ہے اور نہ ہی کسی بھی مسلمان امام کے ہاں مستحب ہے، بلکہ آلہ تناسل کو جھاڑنا بھی صحیح موقف کے مطابق بدعت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے شریعت کا حصہ قرار نہیں دیا۔
اسی طرح پیشاب کو دبا کر نکالنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شریعت میں شامل قرار نہیں دیا، اس حوالے سے بیان کی جانے والی روایت ضعیف ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پیشاب طبعی طور پر خود ہی سارا نکل جاتا ہے، اور جب مثانہ خالی ہو جائے تو خود ہی پیشاب آنا بند ہو جاتا ہے، اس کا معاملہ تھنوں جیسا ہے کہ اگر آپ تھن کو ہاتھ نہ لگائیں تو کچھ نہیں نکلے گا لیکن اگر ہاتھ لگا دیں تو دودھ نکلنا شروع ہو جائے گا۔
انسان جب کبھی اپنے ذکر کے سوراخ کو کھولے گا تو ممکن ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ نکل آئے، اور اگر آپ اسے نہیں چھیڑیں گے تو کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ البتہ بسا اوقات یہ خیال آتا ہے کہ ذکر سے کچھ خارج ہوا ہے تو یہ وسوسہ ہے۔
ایسے خیالات جسے آتے ہیں اسے کبھی ذکر کی سپاری پر ٹھنڈک بھی محسوس ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ گمان کرتا ہے کہ شاید پیشاب کے راستے کچھ خارج ہو گیا ہے، حالانکہ کچھ بھی خارج نہیں ہوا ہوتا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پیشاب آلہ تناسل کے سرے میں رکا ہوا ہوتا ہے باہر قطرے کی شکل میں نہیں نکلتا، لیکن جیسے ہی سپاری کو دبائے، یا مقعد کے پاس سے آنے والی پیشاب کی نالی کو دبائے ، یا سپاری کے سوراخ کو انگلی یا ڈھیلے وغیرہ سے چھیڑے تو رکا ہوا قطرہ باہر نکل جاتا ہے، تو طہارت کا یہ طریقہ کار بھی خود ساختہ ہے؛ کیونکہ پیشاب کی نالی میں موجود پیشاب کو ڈھیلے ، یا انگلی کے ذریعے باہر نکالنا بھی علمائے کرام کے متفقہ موقف کے مطابق ضروری نہیں ہے۔ انسان اپنے ذکر سے جتنا بھی پیشاب نکال لے تو اس کی جگہ اور آ جائے گا؛ کیونکہ پیشاب تسلسل کے ساتھ رِستا رہتا ہے، استنجا کرتے ہوئے مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا کافی ہوتا ہے اس کے بعد یہ ضروری نہیں کہ پانی بھی استعمال کیا جائے، پھر استنجا کرنے والے کے لیے یہ مستحب ہے کہ اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکے اور اگر رطوبت خارج ہونے کا احساس ہو تو یہی سمجھے کہ وہ چھڑکا ہوا پانی ہی ہے۔" ختم شد
دوم:
آلہ تناسل دھونے کے بعد اس پر موجود باقی ماندہ پانی پر طہارت کا حکم لگایا جائے گا؛ کیونکہ نجاست دھونے کے بعد نجاست سے الگ تھلگ پانی پاک ہوتا ہے۔
سوم:
استنجا کرنے کے بعد آپ اپنے انڈر وئیر پر پانی چھڑک لیا کریں، چنانچہ اگر استنجا کرنے کے بعد اگر آپ کو رطوبت محسوس ہو تو اسے چھڑکا ہوا پانی سمجھیں۔
سنن ابن ماجہ: (464) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار وضو فرمایا اور اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/ 115)میں کہتے ہیں:
"وسوسے ختم کرنے کے لیے مستحب ہے کہ اپنی شرمگاہ اور شلوار پر پانی چھڑکے۔
حنبلؒ کہتے ہیں: میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا: میں پیشاب وغیرہ سے اچھی طرح فراغت کے بعد وضو کر لیتا ہوں، لیکن پھر مجھے لگتا ہے کہ میرا وضو ٹوٹ گیا ہے! تو امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: جب آپ وضو کرنا چاہیں تو اپنے آپ کو مکمل مطمئن کرنے کے لیے ایک چلو پانی لے کر اپنی شرمگاہ پر چھڑک دیں اور پھر وضو ٹوٹنے کے خیالات کی جانب توجہ بھی نہ دیں، ان شاء اللہ چھڑکے ہوئے پانی کی وجہ سے یہ خیالات ختم ہو جائیں گے۔" ختم شد
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (4/125) میں ہے کہ:
"حنفی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ: پانی کے ساتھ استنجا سے فراغت کے بعد مستحب ہے کہ اپنی شرمگاہ یا شلوار پر کچھ پانی وسوسوں کو ختم کرنے کے لیے چھڑک دے، چنانچہ اگر کسی چیز کے نکلنے کا شک ہو تو اس تری کو اسی چھڑکے ہوئے پانی کی تری شمار کرے، تا آں کہ اسے واقعی کسی چیز کے نکلنے کا یقین ہو جائے۔" ختم شد
نیز ہمیں آپ کے سوالات سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ وسوسوں میں مبتلا ہیں، اللہ تعالی اپنا فضل فرماتے ہوئے آپ کو اس بیماری سے محفوظ فرمائے، وسوسوں سے دور رہنے کے لیے آپ جہاں تک ہو سکے ان کی طرف توجہ نہ دیں، اللہ تعالی کی پناہ چاہیں، ہم آپ کو یہ بھی مشورہ دیں گے کہ آپ طبی ماہر سے بھی رجوع کریں؛ کیونکہ وسوسے بھی دیگر بیماریوں کی طرح بیماری ہیں، چنانچہ اگر آپ طبی علاج اور شرعی دم دونوں کا اہتمام کریں تو اچھا ہے اور اگر کوئی سلوکی علاج (behavioural therapy) کو جانتا ہو تو اس کی زیر نگرانی آپ یہ بھی اپنائیں، امید ہے کہ آپ کو اس سے فائدہ ہو گا اور آپ ان شاء اللہ جلد شفا یاب ہو جائیں گے ۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب