0 / 0
55211/05/2024

مرمت کے لیے دی گئی چیزوں کو لوگ ورکشاپ پر چھوڑ دیتے ہیں، ان کا کیا کیا جائے؟

سوال: 273235

مجھے ایک مسئلہ در پیش ہے، اور مجھے اس کے حکم کا بھی علم نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میری گھریلو الیکٹرانکس کی مرمت کی دکان ہے، عام طور پر میرے پاس فریج، واشنگ مشین، اور اے سی وغیرہ صحیح ہونے کے لیے آتے ہیں، میری ورکشاپ کوئی اتنی بڑی نہیں ہے، چیزوں کو مرمت کے لیے دے کر جانے والے لوگ انہیں واپس اٹھانے نہیں آتے اور نہ انہیں ٹھیک کرواتے ہیں ، میں بسا اوقات 1 سال یا 2 سال تک بھی انتظار کرتا ہوں، لیکن وہ پھر بھی نہیں آتے، تو چونکہ ورکشاپ میں جگہ ختم ہو جاتی ہے اور میرے لیے نئے گاہکوں کو سروس مہیا کرنا ممکن نہیں رہتا تو میں ان کی فٹنگ کھول کر پھینک دیتا ہوں، بسا اوقات وہ چیزیں مہینوں دکان کے باہر بھی پڑی رہتی ہیں ، لیکن ان کے مالکان پھر بھی نہیں آتے تو میں انہیں پھینک دیتا ہوں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میں ان میں سے قابل استعمال پارٹس نکال لیتا ہوں، پھر سال ، دو سال کے بعد ان کے مالکان آ کر مجھ سے اپنی چیزوں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں انہیں کہہ دیتا ہوں کہ جگہ کی تنگی کے باعث میں نے انہیں پھینک دیا تھا، اگر جگہ تنگ نہ ہوتی تو میں انہیں کبھی نہ پھینکتا۔ تو یہ بات سن کر کچھ تو مان جاتے ہیں لیکن کچھ اڑ جاتے ہیں اور معاملہ رفع دفع نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے میری چیز چاہیے۔ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جن لوگوں کے گھروں کا مجھے پتہ تھا اور انہوں نے سال بھر اپنی چیز واپس نہیں اٹھائی تو اپنی جیب سے کرایہ لگا کر ان کے گھر تک چھوڑ کر آیا ہوں۔ لیکن جن کے گھروں کا مجھے علم نہیں ہے ان کا سامان میں نہیں پہنچا سکتا؛ کیونکہ یہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو میری دکان کے باہر چیز رکھ کر چلے جاتے ہیں، میں اسے اٹھا کر رکھ لیتا ہوں اور چھ ماہ تک اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ورنہ میں اسے پھینک دیتا ہوں۔ تو میں اپنے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس چیز کو میں پھینک دیتا ہوں کیا وہ میرے پاس امانت پڑی ہوئی تھی؟ کہ میں اس میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ امانت ہے تو پھر کتنی مدت تک میں اسے اپنے پاس محفوظ رکھوں؟ اور اگر میرا طریقہ کار درست نہیں ہے تو مجھے بتلائیں کہ میں کیا کروں؟ میں بہت پریشان ہوں، میں نہیں چاہتا کہ اللہ تعالی کو غضبناک کروں، اور لوگوں کا مال ہڑپ کرنے والا بن جاؤں!

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جو چیزیں آپ کے پاس مرمت کے لیے آتی ہیں وہ آپ کے پاس لوگوں کی امانت ہیں، آپ کے ذمہ ہے کہ آپ ان کی پوری حفاظت کریں اور ان کے مالکان آپ سے اپنی چیزیں وصول کر لیں۔

لیکن اگر چیزوں کے مالکان اپنی اشیائے مرمت ، مرمت ہونے کے بعد وصول کرنے کے لیے نہیں آتے اور عمومی انتظار کی مدت سے اتنے لیٹ ہو جاتے ہیں کہ اب ان کے مالکان کے واپس آنے کی امید نہ رہے، یا اشیائے مرمت کی بھر مار ہونے کی وجہ سے دکان میں جگہ تنگ پڑ جائے، یا ان کی حفاظت کرنا مشکل ہو جائے تو:

ان حالات میں آپ کے لیے اپنے آپ سے ضرر ہٹانے کی غرض سے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرنا جائز ہے، اس میں سے آپ اپنی مقررہ اجرت خود رکھ لیں اور بقیہ اپنے پاس محفوظ کر لیں، اور پھر کسی بھی وقت اس کا مالک آپ کے پاس آئے تو اسے اس کی رقم دے دیں۔

اسلامی فقہ ویب سائٹ کی فتوی کمیٹی کے مطابق:
"دکاندار پر لازم ہے کہ اتنی مدت تک انتظار کرے کہ اس کے بعد مالک کے آنے کا امکان باقی نہ رہے، پھر وہ اس چیز کو فروخت کر سکتا ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی رقم میں سے اپنی اجرت نکال لے ، اسی طرح اس چیز کو رکھنے کا کرایہ عرف کے مطابق یا پیشگی شرط کے حساب سے کاٹے، اور پھر اگر مالک کا کوئی حصہ بچ جائے تو مالک کے آنے پر اس کا حصہ اسے تھما دے، اور اگر نہ آئے تو دکاندار بقیہ رقم سے استفادہ کر سکتا ہے، تاہم دکاندار اس کے مثل کا ضامن رہے گا، اور اگر محتاط عمل اپناتے ہوئے اسی چیز کو محفوظ رکھے تو یہ افضل ہے۔

یہ شرعی ضابطہ: "ضرر زائل کیا جاتا ہے" کا تقاضا ہے۔ اور یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ ایسی چیزیں اگر دکان میں پڑی رہیں اور مرمت کی اجرت بھی وصول نہ ہو اس سے دکاندار یا ورکشاپ یا لانڈری کے مالک کا کافی نقصان ہو گا ، خصوصاً ایسی صورت حال میں جب مرمت کے لیے سپیئر پارٹس وغیرہ کی ضرورت بھی ہو، اور دکاندار نے اپنے ہاں کام کرنے والی لیبر کو تنخواہیں بھی دینی ہوں، دکان کا کرایہ بھی دینا ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ دکاندار ایسی چیزوں کی موجودگی کی وجہ سے مزید کام نہ پکڑ سکے کیونکہ ان کی مرمت کرنے کی جگہ ہی نہیں ہے!

اور اگر ایسا معاملہ ایک سے زیادہ گاہک کریں تو دکاندار تو بے چارہ پس جائے گا، لہذا ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دکاندار کو یہ گنجائش دی گئی کہ وہ اس چیز کو فروخت کر دے اور مذکورہ طریقہ کار اپنائے۔" ختم شد
ماخوذ از ویب سائٹ: "الفقه الإسلامي"

آپ کے لیے مشورہ یہ ہے کہ:
آپ اپنی ورکشاپ کی بل بک پر یا دکان میں کسی واضح جگہ پر لکھ دیں جو کہ سب گاہکوں کو نظر آئے کہ:

مخصوص مدت کے بعد اگر مالکان اپنی اشیائے مرمت دکان سے نہ اٹھائیں تو دکاندار ان کا ذمہ دار نہیں رہے گا۔ یہ مدت اتنی ہو کہ اس میں دو طرفہ مفادات کو یکساں دیکھا جائے۔

چنانچہ اس مدت کے گزرنے کے بعد اب آپ پر لازم نہیں ہے کہ آپ اس چیز کو اپنے پاس محفوظ رکھیں، آپ اسے بیچ کر اپنی اجرت نکال لیں، اور بقیہ رقم صدقہ کر دیں، یا پھر وہ چیز ہی بعینہٖ صدقہ کر دیں، یا اگر وہ چیز بیچنے اور صدقہ کرنے کے قابل ہی نہ ہو تو اسے تلف کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی ایک اچھا طریقہ ہے کہ: ہر چیز پر اس کے مالک کا رابطہ نمبر درج کر دیں، یا رابطہ کرنے کا ذریعہ لکھ دیں، کہ مالک کو میسج کر دیں، اور ساتھ ہی تاریخ درج کر دیں، پھر مدت مکمل ہونے سے پہلے آپ مالک سے رابطہ کریں، تا کہ آپ مالک کو خبردار کر سکیں کہ مقررہ مدت تک آپ اپنی چیز وصول نہیں کریں گے تو دکاندار اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، لہذا گر وہ آ جائے تو اچھی بات ہے، وگرنہ آپ پہلے مذکور طریقے کے مطابق عمل کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android