کافروں کے ساتھ تجارتی لین دین کرنا جائز ہے، چاہے یہ کافر حربی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ ایسی تجارت جائز نہیں ہے جن کے ذریعے انہیں جنگی معاونت ملے، لہذا محارب کافر کو اسلحہ فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حربی کافروں کو اسلحہ فروخت کرنا اجماعی طور پر حرام ہے۔" المجموع (9/432)
اسی طرح الموسوعة الفقهية : (7/ 112) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کی عبارتیں حربی کافروں کے ساتھ تجارت کے جواز کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اس لیے مسلمان یا ذمی شخص حربی علاقے میں پروانہ امان لے کر تجارت کی غرض سے جا سکتا ہے، اسی طرح حربی شخص ہمارے علاقوں میں پروانہ امان لے کر تجارت کے لیے داخل ہو سکتا ہے اور اسلامی حدود سے گزرنے پر اس سے دسواں حصہ محصولات کی مد میں لیا جائے گا۔
تاہم حربی کافر تاجروں کو اسلحہ ، آلات اور دیگر ایسی چیزیں مہیا نہیں کی جائیں گی جن سے ان کی جنگی صلاحیت میں اضافہ ہو، اسی طرح حربی کافر تاجروں کے لیے شرعی طور پر ناجائز چیزیں فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، جیسے کہ شراب، خنزیر اور دیگر حرام چیزیں؛ کیونکہ یہ شرعی طور پر ممنوع چیزیں ہیں اور ان چیزوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح کسی پروانہ امن رکھنے والے حربی کے لئے اسلامی علاقوں سے کوئی اسلحہ خریدنا بھی جائز نہیں ہے۔
تو مذکورہ بالا قیود سے ہٹ کر آزادانہ تجارت جائز ہو گی۔
تاہم مالکی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ مسلم علاقوں سے غیر مسلم علاقوں کو برآمدات نہیں کی جا سکتیں، اسی طرح اگر کافروں کے ہاں تاجروں پر بھی جنگی قوانین لاگو ہوں تو مسلمان ان کے علاقوں میں جا کر بھی تجارت نہیں کر سکتے؛ کیونکہ کافروں کے علاقے میں کسی بھی قسم کی برآمدات سے انہیں مسلمانوں کے مقابلے میں قوت ملے گی، اور ویسے بھی مسلمان کو غیر مسلم علاقے میں اقامت پذیر ہونے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان اقامت پذیر ہے)
اسی طرح غیر مسلم علاقوں میں کھانے پینے کی چیزیں بھی برآمد کرنا جائز نہیں ہے الّا کہ مسلمانوں کی دشمن کے ساتھ صلح چل رہی ہو، لیکن جب صلح نہ ہو تو جائز نہیں ۔
ہمارے علاقوں سے غیر مسلم خطوں کے لیے برآمدات کے جواز کی دلیل ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جب وہ مسلمان ہو گئے تو ان سے مکہ والوں نے کہا: تم بے دین ہو گئے ہو!
تو ثمامہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں بے دین نہیں ہوا، میں تو اللہ قسم مسلمان ہوا ہوں اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی ہے اور ان پر میں ایمان لایا ہوں۔ اور اللہ کی قسم! تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اجازت کے بغیر یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں ملے گا، یہ کہہ کر ثمامہ اپنے علاقے میں چلا گیا، اور مکہ والوں کے لیے گندم کی ترسیل بند کر دی، حتی کہ قریش پر فاقوں کی نوبت آ گئی، پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف مراسلہ بھیجا اور آپ کو اپنی رشتہ داری کا واسطہ دینے لگے اور مطالبہ کیا کہ ثمامہ کو کہیں کہ گندم کی ترسیل دوبارہ جاری کرے۔ قریش کی درخواست کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول کر لیا۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمنوں کو کھانے پینے کی چیزیں برآمد کی جا سکتی ہیں، چاہے دشمنوں کے ساتھ جنگ جاری ہی کیوں نہ ہو۔
انہی دلائل میں وہ تمام احادیث بھی شامل ہیں جو حربی لوگوں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلاتی ہیں، اسی طرح حربی لوگوں کے وصیت کرنا بھی اس کے جواز کی دلیل ہے، (جیسے کہ ابو سفیان کو کھجوریں تحفہ دی گئیں، اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی مشرکہ والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کی، اور جنگی قیدیوں کو مسلمانوں کا کھانا کھلایا ، وغیرہ)
جبکہ اسلحہ وغیرہ انہیں برآمد نہ کرنے کے دلائل میں درج ذیل دلائل شامل ہیں:
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتنے کے وقت اسلحہ فروخت کرنے سے منع فرمایا، فتنہ مسلمانوں کی اندرونی لڑائی کو کہتے ہیں، جبکہ غیر مسلمانوں سے لڑائی تو داخلی فتنے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، اس لیے کافروں کو بالاولی اسلحہ فروخت کرنا حرام ہو گا۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کسی بھی مسلمان کے لیے مسلمانوں کے دشمن کے پاس اسلحہ بھیجنا جائز نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے دشمن مسلمانوں کے خلاف قوت پکڑے ، نہ ہی گھوڑے بھیجنا جائز ہے، بلکہ کسی بھی قسم کی معاون چیز دشمن کو دینا جائز نہیں ہے۔
تو معلوم ہوا کہ دشمنوں کو اسلحہ فروخت کرنے سے انہیں مسلمانوں کے خلاف تقویت ملے گی، دشمن مسلمانوں کے خلاف جنگیں شروع بھی کریں گے اور پھر انہیں جاری بھی رکھیں گے، اور ان سب چیزوں کا تقاضا ہے کہ دشمنوں کو یہ چیزیں برآمد نہ کی جائیں۔" ختم شد
تو یہ ہے حربی لوگوں کے ساتھ اسلحہ کے علاوہ چیزوں کی تجارت کے حوالے سے بنیادی اور اصولی موقف ، تاہم اگر مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کو بہتر سمجھیں اور اہل علم اس کی اجازت دیں اور فیصلہ کر لیں تو پھر اس بائیکاٹ کو کامیاب بنانے کے لیے بھر پور کوشش کی جائے گی۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (20732 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
پایونیر ڈیبٹ کارڈ میں پایونیر کی رکنیت کی حامل تجارتی کمپنیاں رقوم منتقل کر سکتی ہیں، اس کے لیے پایونیر کارڈ کو ان کے ساتھ منسلک کرنا پڑتا ہے۔ پایونیر کارڈ کی بدولت کارڈ کے حامل افراد کو انٹرنیٹ سے کمائے گئے سرمایہ کو کہیں سے بھی نکالنے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، یہ کارڈ کریڈٹ کارڈ نہیں ہوتا۔
اس کارڈ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ کافروں کے ساتھ لین دین کیا جا سکتا ہے چاہے یہ کافر حربی ہی کیوں نہ ہو۔
واللہ اعلم