میں پراپرٹی ڈیلر کے طور پر کام کرتا ہوں، میرے اپنے ذاتی گاہک بھی ہیں، اور بسا اوقات مجھے اپنے گاہکوں کے لیے پراپرٹی خریدنے کے لیے دیگر ڈیلروں کی مدد بھی لینی پڑتی ہے، اس طرح میرے ذاتی گاہکوں اور معاون ڈیلروں کے درمیان بھی تعلقات استوار ہو جاتے ہیں، اور ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں بلکہ ان کے درمیان پراپرٹی کا لین دین بھی ہو جاتا ہے اور وہ ارادی یا غیر ارادی طور پر مجھے بھی اس کی خبر نہیں ہونے دیتے، تو اب کیا مجھے بھی ان کے باہمی تجارتی لین دین میں کمیشن ملنا چاہیے یا نہیں؛ کیونکہ وہ گاہک تو اصل میں میرا گاہک تھا؟ تو کیا میرے لیے اس پراپرٹی ڈیلر سے کمیشن کا مطالبہ کرنا جائز ہے؟ چاہے میں نے اس ڈیلر پر پہلے سے شرط عائد کی تھی یا نہیں کہ اگر آئندہ ان کے درمیان کوئی بھی پراپرٹی کا تجارتی لین دین ہوا تو مجھے اس میں سے کمیشن ضرور ملے گا کیونکہ میں نے ہی اسے اس گاہک کے متعلق بتلایا تھا۔
ایک دلال کو گاہک کے متعلق معلومات دیں تو جب بھی دلال اور گاہک لین دین کریں گے تو اسے کمیشن ملے گا؟
سوال: 278377
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
کاروباری لین دین میں دلالی کا کام کرناجسے بروکری بھی کہہ دیتے ہیں بنیادی طور پر تو جائز کام ہے، اور اس پر ملنے والا کمیشن فقہائے کرام کے ہاں "جعالہ" کے نام سے جانا جاتا ہے، امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ: "باب ہے دلال کی اجرت کے بارے میں: ابن سیرین، عطاء، ابراہیم نخعی اور حسن دلال کی اجرت کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے" ختم شد
نیز اس اجرت کا مستحق وہی شخص ہو گا جو شخص دلالی کا کام کرے گا، اور بائع مشتری میں سودے کے لیے کوشش کرے گا؛ کیونکہ دلالی کی اجرت اسی شخص کے لیے ہوگی جو دلالی کا عمل سر انجام دے گا۔
جیسے کہ الروض المربع، صفحہ: (446) میں ہے کہ:
"مالک مبیع نے کہا: جو شخص دلالی کا کام کرے گا اسے اتنی اجرت دوں گا، تو یہ سن کر کسی نے دلالی کا کام مالک کے علم میں لا کر کیا تو وہ اس اجرت کا مستحق ہو گیا؛ کیونکہ یہاں معاہدہ کسی کام کے پورا ہونے کے ساتھ مشروط ہے اور جیسے ہی کام مکمل ہوا تو اجرت کا مستحق بن گیا، اور اگر کئی لوگ مل کر دلالی کا کام کریں تو وہ آپس میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کریں گے؛ کیونکہ وہ سب کے سب ایک کام میں شریک تھے، اس لیے اجرت میں بھی شریک ہوں گے۔" ختم شد
اس بنا پر: جس وقت آپ کے ذاتی گاہک اور اس پراپرٹی ڈیلر کے درمیان جس نے آپ کی لین دین میں مدد کی تھی، کوئی تجارتی لین دین ہو جاتا ہے، اور وہ پراپرٹی کا لین دین کرتے ہیں تو آپ کو ان کے تجارتی لین دین پر کچھ بھی کمیشن نہیں ملے گا، چاہے آپ اس کی شرط لگائیں یا نہ لگائیں؛ اور اگر آپ شرط لگا بھی دیں تو پھر یہ باطل اور کالعدم شرط ہو گی؛ کیونکہ کمیشن کسی محنت پر ملتا ہے اور آپ نے پہلے تجارتی لین دین کے علاوہ بعد میں کچھ بھی محنت نہیں کی۔
چنانچہ جب بھی آپ یہ شرط اس پر عائد کریں گے تو وہ کالعدم ہوگی؛ کیونکہ یہ ایسی شرط ہے جو کہ اللہ کی کتاب میں موجود نہیں ہے، یعنی وہ شریعت سے متصادم شرط ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : (کیا ہو گیا ہے لوگوں کو کہ وہ ایسی شرائط لگاتے ہیں کہ جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، لہذا کوئی بھی ایسی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے، چاہے وہ سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں، اللہ تعالی کا فیصلہ زیادہ مبنی بر حق ہے، اور اللہ تعالی کی شرائط زیادہ مضبوط ہیں۔) بخاری: (2168)، مسلم: (1504)
اس لیے آپ پہلے تجارتی معاہدے پر تو کمیشن لے سکتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے ایک گاہک کے متعلق اسے بتلایا تھا، لیکن اس کے بعد والے جتنے بھی لین دین ہوئے ہیں ان میں آپ نے کیا محنت کی ہے؟ تو کس محنت کے عوض میں آپ کمیشن کے مستحق ٹھہرتے ہیں؟!
الموسوعة الفقهية (26/ 60) میں ہے کہ:
"منافع پر استحقاق: انسان منافع کا مستحق صرف مالی یا عملی شراکت یا ضمانت پر بنتا ہے، لہذا سرمایہ لگا کر نفع کا مستحق بنا جا سکتا ہے؛ کیونکہ یہ نفع بھی اسی سرمائے کا ہو گا اس لیے سرمائے کا مالک اس نفع کا بھی مالک ہو گا، یہی وجہ ہے کہ مضاربت میں مالک کو منافع میں سے حصہ دیا جاتا ہے۔
اسی طرح محنت اور کام کر کے بھی منافع کا مستحق بنا جاتا ہے، مثلاً: مضاربت میں کام کرنے والے کو جو نفع ملتا ہے وہ اس کی محنت کی وجہ سے ملتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک مزدور کو مزدوری ملتی ہے۔
اسی طرح ضمانت کی بنا پر بھی منافع کا مستحق بنا جاتا ہے، جیسے کہ فقہی زبان میں "شركة الوجوه" میں ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (منافع ضمانت کی بنا پر ملتا ہے) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (آمدن ضمانت سے ملتی ہے) یعنی مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس چیز کی ضمانت دیتا ہے تو اس کی آمدن بھی اسی کو ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک شخص درزی کو کپڑے دے کر اس سے سلائی کرنے کا معاہدہ کر لیتا ہے اور کپڑے سلائی ہونے پر اسے معلوم مقدار میں اجرت دی جاتی ہے، لیکن یہی درزی کسی اور سے یہی کام کروا لیتا ہے لیکن اصل گاہک سے طے شدہ اجرت سے بھی کم اجرت میں تو اضافی اجرت وہ خود رکھ لیتا ہے، اس طرح وہ منافع کما لیتا ہے یہ دونوں کے لیے حلال اور پاکیزہ ہو گا، یہاں منافع اس لیے اسے ملا کہ اس نے کام کر کے دینے کی ضمانت دی تھی، یہ نہیں کہا تھا کہ وہ خود یہ سلائی کرے گا، اور عین ممکن ہے کہ اس درمیان والے درزی کو کچھ بھی نہ بچے۔
لہذا جہاں پر ان تینوں اسباب میں سے کوئی بھی سبب نہ پایا جائے تو کسی کو بھی کسی قسم کا منافع نہیں دیا جا سکتا۔
اس لیے ایسا صحیح نہیں ہوگا کہ کوئی کسی کو کہے: تم اپنے سرمائے سے کاروبار کرو اور اس کا منافع مجھے ملے ، یا منافع ہم دونوں کے درمیان تقسیم ہو؛ کیونکہ یہ بات تمام تر اہل دانش افراد کے ہاں فضول ہے، لہذا سارے کا سارا منافع سرمائے کے مالک کا ہو گا، اس میں کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب