مسلمان اور اس كى زندگى پر حج كے كيا اثرات مرتب ہوتے ہيں ؟
مسلمان اور اس كى زندگى پر حج كے اثرات
سوال: 2807
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مناسك حج كے بہت سے فضائل اور حكمتيں ہيں، جس شخص كو انہيں سمجھنے اور اس پر عمل كرنے كى توفيق حاصل ہو جائے اسے خير عظيم كى توفيق حاصل ہو جاتى ہے.
ذيل كى سطور ميں ہم كچھ چيزيں بيان كرينگے:
1 – حج كى ادائيگى كے ليے سفر كرنا:
اس سفر سے انسان كو دار آخرت كى ياد آتى ہے، جس طرح سفر ميں دوست و احباب اور بيوى بچوں اور اہل و عيال اور وطن سے جدائى اختيار كرنا پڑتى ہے، دار آخرت كى طرف سفر بھى اسى طرح ہے.
2 – جس طرح حج كے سفر ميں جانے والا شخص ديار مقدسہ تك جانے كے ليے زاد راہ لے كر چلتا ہے، تو اسے يہ بھى ياد كرنا چاہيے كہ اس كا اپنے رب كى طرف كے ليے بھى كچھ نہ كچھ زاد راہ ہونا چاہيے جو اسے اس كے امن والى جگہ تك پہنچائے، اسى كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم زاد راہ اختيار كرو، اور سب سے بہتر زاد راہ اللہ كا تقوى ہے البقرۃ ( 197 ).
3 – اور جس طرح سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے، تو آخرت كا سفر بھى اسى طرح ہے، بلكہ كئى مراحل پر تو اس سے بھى زيادہ كٹھن اور سخت ہے، چنانچہ انسان كے آگے حالت نزع، اور موت اور پھر قبر اور اس كے بعد حشر و نشر اور حساب و كتاب، اور ميزان پر اعمال كا وزن ہونا، اور پل صراط، اور پھر آخر ميں يا تو جنت ہے يا جہنم، اور سعادت مند وہى ہو گا جسے اللہ تعالى نجات نصيب كرے.
4 – اور جب حج كے ليے انسان احرام باندھ كر دو سفيد چادريں اوڑھتا ہے تو اسے وہ كفن ياد آتا ہے جس ميں اسے دفنايا جائيگا، اور يہ چيز اسے اس بات كى دعوت ديتى ہے كہ وہ سب گناہ اور معصيت بالكل اسى طرح ترك كر دے جس طرح اس نے اپنا دوسرا لباس اتار كر يہ كفن نما صاف شفاف سفيد دو چادريں اوڑھ لى ہيں، تو اسى طرح اسے اپنے دل بھى صاف كر لينا چاہيے، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء كو بھى گناہ اور معصيت كى سياہى سے صاف ركھتا ہوا سفيد كر لے.
5 – اور جب وہ ميقات پر تلبيہ كے يہ الفاظ كہتا ہے:
" لبيك اللهم لبيك " اے اللہ ميں حاضر ہوں ميں حاضر ہوں.
اس كا معنى يہ ہے كہ اس نے اپنے رب كى بات كے سامنے سر خم تسليم كرتے ہوئے اس كى بات كو تسليم كر ليا ہے.
تو پھر اسے كيا ہے كہ وہ شخص گناہوں اور معصيت پر باقى رہے اور اس انہيں ترك نہ كرے اور اس كى آلائشوں سے اجتناب نہ كرے، اس نے اپنے رب كے سامنے يہ كلمات كيوں كہے:
" لبيك اللهم لبيك " اے اللہ ميں حاضر ہوں، ميں حاضر ہوں.
يعنى ميں نے ان اشياء سے اجتناب كرنے كى تيرى بات كو تسليم كر ليا ہے، اور كيا يہ وقت انہيں ترك كرنے كا نہيں ہے ؟
6 – دوران احرام ممنوعہ اشياء سے اجتناب كرنا، اور تلبيہ اور اللہ كا ذكر كرنے ميں مشغول رہنا:
اس ميں مسلمان كى اس حالت كى بيان ہے جس پر اسے رہنا چاہيے، اور پھر اس ميں اس كى تربيت اور ذكر و اذكار كو عادت بنانے تعليم ہے، مسلمان اس حالت ميں ان اشياء كو بھى ترك كرنے كى تربيت حاصل كرتا ہے جو اصل ميں مباح اور جائز تھيں، ليكن اللہ تعالى نے يہاں حالت احرام ميں اس پر حرام كر دى ہيں، تو پھر ايك مسلمان شخص ہر وقت اور ہر جگہ اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء كا ارتكاب كيسے كرتا ہے ؟
7 – اس كا حرمت والى جگہ بيت اللہ جسے اللہ تعالى نے لوگوں كے ليے امن والى جگہ بنايا ہے ميں داخل ہونا بندے كو روز قيامت كے امن كى ياد دلاتا ہے، اور اس بات كى ياد دہانى ہے كہ انسان اسے تكليف اور كوشش كر كے ہى حاصل كر سكتا ہے.
اور روز قيامت امن دينے والى سب سے بڑى چيز توحيد اختيار كرنا اور شرك سے اجتناب ہے، اسى كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
جو لوگ ايمان لائے اور انہوں نے اپنے ايمان ميں شرك كى آميزش نہيں كى انہى لوگوں كے ليے امن ہے اور يہى ہدايت يافتہ ہيں الانعام ( 81).
اس كا حجر اسود كو چوم كر اپنى اس عبادت كى ابتدا كرنا سنت نبوى كى تعظيم كى تربيت ديتا ہے، اور اسے يہ ياد دلاتا ہے كہ اللہ تعالى كى شرع پر اپنى ناقص عقل كو استعمال كرتے ہوئے خلاف شرع كام نہيں كر سكتا، اور اس كے علم ميں ہونا چاہيے كہ اللہ تعالى نے لوگوں كے ليے جو كچھ بھى مشروع كيا ہے اس ميں ہى حكمت اور خير ہے، اور اس سے وہ اپنے نفس كو اپنے رب كى عبادت كے ليے تيار كرتا ہے.
اسى كے متعلق عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے حجر اسود كو بوسہ لينے كے بعد يہ فرمايا تھا:
" مجھے يہ علم ہے كہ تو ايك پتھر ہے نا تو كوئى نفع دے سكتا ہے اور نہ ہى كسى نقصان كا مالك ہے، اور اگر ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تيرا بوسہ ليتے ہوئے نہ ديكھا ہوتا تو ميں بھى تيرا بوسہ نہ ليتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1520 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1720)
8 – اور بيت اللہ كا طواف كرتے وقت اسے اپنے جد امجد ابراہيم عليہ السلام كى ياد آتى ہے كہ انہوں نے بيت اللہ كى تعمير كى تا كہ يہ لوگوں كے امن و سكون كى جگہ ہو، اور انہوں نے لوگوں كو اس گھر كے حج كى دعوت دى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے بھى اس گھر كى طرف لوگوں كو بلايا.
اور اسى طرح موسى اور عيسى عليھما السلام بھى اس گھر كا حج كيا كرتے تھے، تو اس طرح يہ ان انبياء كا شعار رہا ہے، اور يہ كيسے نہ ہوتا اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ابراہيم عليہ السلام كو اپنا گھر تعمير كرنے اور اس كى تعظيم كرنے كا حكم ديا تھا.
9 – زمزم كا پانى پينا اسے لوگوں اس عظيم نعمت كى ياد دلاتا ہے جو اللہ تعالى نے لوگوں پر اس مبارك پانى كا چشمہ جارى كر كے كى جسے كروڑوں لوگ عرصہ دراز سے پيتے چلے آرہے ہيں ليكن اس ميں كوئى كمى واقع نہيں ہوئى، اور زمزم پيتے وقت اسے دعا پر ابھارتا ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا زمزم كا پانى اسى ليے جس ليے اسے نوش كيا جائے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3062 ) مسند احمد حديث نمبر ( 14435) اس حديث كو علامہ ابن قيم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ( 4 / 320 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
10 – اور صفا و مروہ كے مابين سعى اسے مائى ہاجرہ عليہ السلام كى اس عظيم برداشت كو ياد دلاتى ہے جو انہوں نے اس آزمائش كے وقت اٹھائى، وہ اس كرب اور مشكل سے نجات حاصل كرنے كے ليے كس طرح صفا و مروہ كے درميان دوڑ رہى تھيں، اور خاص كر اپنے چھوٹے سے بچے اسماعيل عليہ السلام كو پانى پلانے كے ليے كہ كہيں سے پانى حاصل ہو جائے.
لہذا جب يہ عورت اتنى بڑى آزمائش پر صبر و تحمل اور براداشت سے كام لے كر اپنے رب اور اللہ كى طرف ہى رجوع كرتى ہے، جس ميں ہمارے ليے بہترين نمونہ اور اسوہ ہے، اس ليے آدمى كو اس عورت كى جدوجھد اور كوشش ياد كر كے اپنى تكليف كو كم اور ہلكا كر سكتا ہے، اور عورت كو بھى يہ ياد ركھنا چاہيے كہ وہ بھى اس طرح ہى كى ايك عورت ہے جس سے اس كى سختياں آسان ہو جائينگى.
11 – وقوف عرفات حاجى كو ميدان محشر كى ياد دلاتا ہے جہاں سارى مخلوق اكٹھى ہوگى، اور يہ كہ جب اس ميدان عرفات ميں لاكھوں حاجيوں كے رش كے درميان حاجى تھك كر چور ہو جاتا ہے، تو پھر جب سارى مخلوق ننگے پاؤں اور ننگےـ بغير ختنہ كے ـ جسم اكٹھى ايك ہى ميدان ميں ہو گى تو كيا حال ہو گا ؟
12 – جو كچھ ہم حجر اسود كا بوسہ لينے كے متعلق كہہ چكے ہيں رمى جمرات ميں وہى كہينگے كہ مسلمان شخص كو اس سے اطاعت و فرمانبردارى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا كى عادت پڑتى ہے، اور پھر اس ميں خالص عبادت كا بھى اظہار ہوتا ہے.
13 – اور قربانى كا جانور ذبح كرنے ميں اسے وہ عظيم حادثہ ياد آتا ہے جس ميں ابراہيم عليہ السلام نے اللہ تعالى كا حكم نافذ كرتے ہوئے اپنے نوجوان بيٹے كو ذبح كرنے كے ليے لٹايا اور ذبح كے ليے تيار ہو گئے، اور اسے يہ بھى ياد آتا ہے كہ ايسى نرمى جس ميں اللہ تعالى كے حكم اور نہى كى مخالفت ہوتى ہو اسلام ميں كوئى جگہ نہيں، اور اسى طرح اسے يہ تعليم بھى ملتى ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كو كس طرح تسليم كيا جاتا ہے، جب اسماعيل عليہ السلام نے اپنے والد ابراہيم عليہ السلام كو كہا:
اے اباجى آپ كو جو حكم ديا گيا اسے پورا كريں، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر كرنے والوں ميں سے پائيں گے الصافات ( 102 ).
14 – اور جب وہ احرام كھول كر حلال ہو جاتا ہے، اور احرام كى بنا پر اللہ تعالى كى جانب سے حرام كردہ اشياء اس كے حلال ہو جاتى ہيں، اس ميں اس كے ليے صبر و تحمل كى تربيت پائى جاتى ہے، كہ يقينا تنگى كے بعد آسانى ہوتى ہے، اور يہ كہ اللہ تعالى كے احكام پر عمل كرنے والے شخص كو خوشى و سرور ضرور حاصل ہوتا ہے، اور پھر اس فرحت و سرور كا شعور بھى صرف اسے ہوتا ہے جس ميں اطاعت و فرمانبردارى كى مٹھاس موجود ہو، بالكل اس خوشى و سرور كى طرح جو روزہ دار كو افطارى كے وقت حاصل ہوتى ہے، يا پھر رات كے آخرى حصہ ميں قيام كرنے والے شخص كو نماز كے بعد حاصل ہوتى ہے.
15 – اور جب وہ مناسك حج مكمل كر ليتا ہے، اور پورے حج ميں وہى اعمال بجا لاتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيے اور اسے محبوب ہيں، اور اپنا حج اس اميد كے ساتھ مكمل كرتا ہے كہ اللہ تعالى اس كے سارے گناہ معاف فرما دے گا، تو يہ اسے اس بات كى دعوت ديتا ہے كہ وہ اپنى زندگى كا آغاز نئے سرے سے كرے جو گناہوں اور معاصى كى آلائشوں سے خالى ہو.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص حج كرتا ہے اور حج ميں نہ تو كوئى فسق و فجور كے كام كرے اور نہ ہى غلط كام تو وہ اس طرح واپس پلٹتا ہے جس طرح آج ہى اس كى ماں نے اسے جنم ديا ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1449 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1350 )
16 – اور جب وہ حج كے سفر سے واپس اپنے بيوى بچوں اور اہل و عيال ميں آتا ہے اور انہيں مل كر اسے خوشى و سرور حاصل ہوتا ہے، تو يہ چيز اسے اس عظيم خوشى و سرور كو ياد دلاتى ہے جو اسے جنت ميں اپنے اہل و عيال كو مل كر حاصل ہوگى، اور يہ چيز اسے يہ پہچان كرواتى ہے كہ خسارہ اور نقصان وہ خسارہ ہے جو روز قيامت نفس اور اہل و عيال كھو جانے سے ہو گا، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجيے يقينا خسارہ ميں تو وہى لوگ ہيں جنہوں نے روز قيامت اپنے نفسوں اور اہل و عيال كا خسارہ اٹھايا، خبردار يہى واضح خسارہ ہے الزمر ( 15 ).
آسانى سے يہى كچھ بيان ہو سكا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب