میں نے ایک بار سنا تھا کہ کتابیں تاخیر سے واپس کرنے پر پبلک لائبریریوں کی جانب سے لاگو کر دہ جرمانہ در حقیقت سود ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ جرمانے سودی ہیں تو کیا لائبریری کا کارڈ حاصل کرنے کے لئے ممبر شپ حاصل کرنے اور خدمات سے فائدہ اٹھانے کا حکم بھی سودی کریڈٹ کارڈ کی طرح ہو گا کہ چاہے آپ کتاب وقت پر بھی واپس کر دیں تب بھی سودی لین دین ہی شمار ہو گا؟ نیز ماضی میں میں نے جو جرمانے لائبریری کو ادا کیے ہیں ان کا کیا کرنا ہو گا؟ نیز جو جرمانے ابھی میں نے ادا نہیں کیے وہ میرے ذمے ہیں ان کا کیا کروں؟ اسی طرح کیا میرے لئے اس صورت حال میں لائبریری کی خدمات سے مستفید ہونا جائز ہے؟ اس لئے کہ جن کتابوں کو میں پڑھنا چاہتا ہوں ان تمام کتابوں کو خریدنا میرے لیے مشکل ہے۔
عاریتاً لی گئی کتابوں کی واپسی تاخیر سے کرنے پر جرمانہ لاگو کرنے کا حکم
سوال: 281829
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
پڑھنے کے لئے کتاب عاریۃً لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم کتاب کو مقررہ وقت پر واپس کرنا ضروری ہے، اگر کوئی بلا عذر تاخیر سے کتاب واپس کرتا ہے تو اسے گناہ ہو گا، نیز تاخیر کی صورت میں جرمانہ لاگو کرنا بھی جائز ہے، یہ جرمانہ زائد مدت میں کتاب سے استفادہ کرنے کی اجرت شمار ہو گا۔
اس اجرت پر اگر ابتدا میں ہی اتفاق کر لیا جائے تب بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً: کہا جائے کہ: کتاب کی واپسی میں تاخیر ہونے پر یومیہ اتنا جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
لیکن اگر شروع میں ہی جرمانے کی مقدار معین نہ کی جائے تو پھر اجرتِ مثل یومیہ لاگو کی جائے گی۔
“کشاف القناع” (4/ 68) میں ہے کہ:
“معینہ مقام تک جانے کے لئے سواری عاریۃً لینا جائز ہے، چنانچہ اگر معینہ مقام سے آگے جائے تو اس نے حد سے تجاوز کیا؛ کیونکہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر آگے چلا گیا، تو اس پر اضافی اجرتِ مثل لاگو ہو گی” ختم شد
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“بعض مساجد میں کتابیں عاریتاً لے جانے کی سہولت ہے، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ جو بھی کتاب کو مقررہ مدت میں واپس نہیں کرے گا وہ یومیہ بنیاد پر جرمانہ رقم کی صورت میں ادا کرے گا، جسے مسجد یا مسجد کے متعلقہ امور میں خرچ کیا جائے گا، تو کیا یہ ٹھیک ہے؟
جواب: جی ہاں یہ جائز ہے، اس کا تعلق اجارہ سے ہے، چنانچہ اگر کوئی مقررہ وقت میں کتاب واپس کرنے میں تاخیر کرے تو وہ اجرت کے عوض کتاب پڑھے گا، یہاں اجرتِ مثل کا مطلب یہ ہے کہ صارف نے کتاب سے مقررہ مدت سے زیادہ استفادہ کیا ہے [اس کا عوض ]، مجھے اس بارے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنی شرائط پر قائم رہیں، انہیں پورا بھی کریں، اور کتاب عاریتاً لینے والے کے پاس پڑی نہ رہے، لہذا یہ کہنا کہ اگر پانچ ، یا چھ یا زیادہ دنوں کے لئے کتاب لے کر اس سے بھی زیادہ دن اپنے پاس رکھی تو تاخیر سے کتاب کی واپسی کی بنا پر مقررہ جرمانہ ہو گا، ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے فائدہ ہو گا” ختم شد
ماخوذ از: فتاوی نور علی الدرب: (11/296)
تو اس سے معلوم ہوا کہ عاریتاً لی گئی کتاب کی تاخیر سے واپسی پر لاگو کیا جانے والا جرمانہ سودی جرمانہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ قرضے کے عوض نہیں ہے، بلکہ یہ عاریتاً دی گئی کتاب کی مدت سے تجاوز کرنے کا کرایہ ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب