میں نے دو سال قبل اسلام قبول کیا ہے، اور میں نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کی پابندی پورے اہتمام اور انہماک سے کرتی ہوں، لیکن کچھ عرصے سے ایک مسئلہ در پیش ہے؛ کیونکہ مجھے نماز اور تلاوت اپنی ماں بولی یعنی انگریزی میں ادا کرنے کے متعلق اختلاف رائے کا علم نہیں تھا، مجھے عربی زبان فرفر بولنی نہیں آتی، میں بس بنیادی قسم کے سلام دعا والے کلمات ہی بول سکتی ہوں، تو جو لوگ عربی زبان نہیں بول سکتے ان کے لئے نماز اور تلاوت کی ادائیگی کے حوالے سے کیا صحیح موقف ہے؟ پھر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میری سابقہ نمازیں جو کہ پوری کی پوری انگریزی زبان میں پڑھی ہیں ، اور قرآن کریم کی تلاوت بھی میں نے انگریزی میں ہی کی ہے تو کیا وہ سب باطل ہیں اور ضائع ہوں گی؟
دوران نماز انگریزی زبان میں تلاوت کرنے کا حکم
سوال: 291352
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سورت فاتحہ زبانی یاد کرے؛ کیونکہ سورت فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس شخص کی کوئی نماز ہی نہیں ہے جو سورت فاتحہ نہ پڑھے) اس حدیث کو امام بخاری: (756) اور مسلم : (394)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح جلدی جلدی نماز ادا کرنے والے صحابی کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر تحریمہ کہو، پھر جتنا تمہیں قرآن یاد ہے اس میں سے تلاوت کرو) اس حدیث کو امام بخاری: (757) اور مسلم : (397)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم کی عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں تلاوت بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اگر قرآن کریم کا ترجمہ کر دیا جائے تو وہ قرآن نہیں رہتا ، بلکہ وہ قرآن کی تفسیر ہوتی ہے۔اسی لیے جمہور فقہائے کرام نے نماز کے دوران عربی زبان میں تلاوت کرنا ضروری قرار دیا ہے، چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت صرف عربی زبان میں ہی صحیح ہو گی۔
تاہم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ بغیر عربی زبان کے بھی نماز صحیح ہو جائے گی، البتہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں ابو یوسف اور ابو محمد نے یہ شرط لگائی ہے کہ صرف اس شخص کی نماز صحیح ہو گی جو عربی زبان سے نابلد ہے۔
جیسے کہ "تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق" (1/110) میں ہے کہ:
"فارسی زبان میں قراءت کرنا امام ابو حنیفہ کے موقف کے مطابق جائز ہے۔
جبکہ ابو یوسف اور محمد کا کہنا ہے کہ: اگر عربی زبان نہیں بول سکتا تو جائز ہے؛ کیونکہ قرآن عربی زبان میں ایک منظم کلام کا نام ہے، اور اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا بیشک ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بنایا ہے۔[الزخرف: 3] اور اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ [يوسف: 2]"
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (350/1) میں کہتے ہیں:
"غیر عربی زبان میں قراءت کفایت نہیں کرے گی، نہ ہی قرآن کے عربی الفاظ کو عربی زبان ہی کے دیگر الفاظ سے بدل کر پڑھنا کفایت کرے گا، چاہے وہ عربی زبان جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، یہی موقف امام شافعی، ابو یوسف اور محمد کا ہے۔
جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: غیر عربی میں تلاوت کرنا جائز ہے، تاہم ان کے کچھ شاگردوں کا کہنا ہے کہ غیر عربی میں تلاوت اسی شخص کے لئے جائز ہے جو عربی زبان نہیں جانتا۔ اس کے لئے امام ابو حنیفہ نے یہ دلیل یہ دی ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ
اور میری طرف اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تا کہ میں اس کے ذریعے تمہیں اور ان کو خبردار کروں جن تک قرآن پہنچے۔[الأنعام: 19] اور ظاہر ہے کہ ہر قوم کو اس کی زبان میں خبردار کیا جاتا ہے۔
اور [ابن قدامہ کہتے ہیں کہ] ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ [يوسف: 2] اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ واضح عربی زبان میں [آپ پر قرآن نازل کیا ہے] [الشعراء: 195]
اور یہ بھی کہ قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں معجزہ ہیں، اگر اس کے الفاظ کو بدلا گیا تو وہ قرآنی نظم سے خارج ہو گا، وہ قرآن نہیں کہلائے گا، نہ ہی قرآن کی مثل ہو گا، بلکہ اس کی تفسیر ہو سکتا ہے، اور تفسیر بھی قرآن جیسی ہوتی تو؛ جب اللہ تعالی نے کفار عرب کو قرآن کریم کی ایک سورت جیسی سورت لانے کا چیلنج کیا تھا تو وہ قرآن کا مثل لانے سے عاجز نہ رہتے۔
جبکہ خبردار کرنے کا معاملہ الگ ہے، چنانچہ جب کسی قوم کو قرآن کے ترجمے اور تفسیر کے ذریعے ان کی زبان میں خبردار کیا جائے تو یہ قرآن سے خبردار کرنا شمار ہو گا، ترجمہ اور تفسیر سے نہیں۔
فصل: اگر نمازی عربی زبان میں قراءت کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو اس پر عربی زبان سیکھنا لازمی ہے، اور اگر وہ استطاعت کے باوجود عربی زبان میں تلاوت نہیں کرتا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی، اگر اس میں استطاعت نہ ہو اور نماز کا وقت نکلنے کا خدشہ بھی ہو تو نیز وہ سورت فاتحہ کی ایک آیت سیکھ لے تو اسی آیت کو سات بار ، دہرائے۔۔۔
اور اگر سورت فاتحہ کا تھوڑا سا بھی حصہ اسے یاد نہیں ہے، لیکن قرآن کریم میں سے کچھ اور اسے یاد ہے تو سورت فاتحہ کے برابر پڑھے گا، اس کے بغیر اس کے لئے کوئی چارہ نہیں ہے؛ کیونکہ ابو داود میں سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو جتنا بھی تمہیں قرآن یاد ہے اس میں سے پڑھ لو، بصورت دیگر الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر پڑھتے رہو) اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سورت فاتحہ کے علاوہ سورت بھی قرآن کا ہی حصہ ہے اس لیے اس کو ترجیح حاصل ہو گی ، تاہم یہ ضروری ہے کہ سورت فاتحہ کی آیات کے برابر لازمی پڑھے۔۔۔
اور اگر قرآن کریم میں سے کچھ بھی اسے پڑھنا نہیں آتا نہ ہی نماز کا وقت نکلنے سے پہلے وہ قرآن کریم کا کچھ حصہ سیکھ سکتا ہے تو ایسے نمازی پر لازمی ہے کہ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ پڑھے، کیونکہ ابو داود میں روایت ہے کہ : (ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے قرآن کریم کا کچھ بھی حصہ یاد نہیں ہوتا، تو مجھے ایسی چیز سکھا دیں جو میرے لیے کفایت ہو جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم کہو: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ ۔ اس پر اس شخص نے کہا: یہ تو اللہ کے لئے ہے، میرے لیے کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم کہو: اَللَّهُمَّ اغْفِرِ لِي، وَارْحَمْنِي، وَارْزُقْنِي ، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي ترجمہ: یا اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے روزی عطا فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے عافیت سے نواز۔ )" ختم شد
جبکہ سورت فاتحہ کے بعد والی تلاوت واجب نہیں ہے۔
تلاوت کے علاوہ تکبیرات ، سجدے کی تسبیحات اور تشہد بھی عربی زبان میں کہنا واجب ہے اس لیے انہیں سیکھنا بھی واجب ٹھہرا، تاہم اگر عربی زبان میں نہ کہنا آتا ہو تو اپنی زبان میں کہہ دے، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3471) اور (20953) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
آپ جو قرآن کریم کی تلاوت اور نماز کی ادائیگی اپنی زبان یعنی انگریزی میں کرتی رہی ہیں اس میں آپ کے لیے اجر کی امید ہے، نیز آپ کی لا علمی اور غیر عربی زبان میں ایک فقہی مذہب کے مطابق نماز درست ہونے کی بنا پر آپ کی پکڑ بھی نہیں ہو گی۔
لیکن اب سے آپ قرآن کریم کی تلاوت عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں کر سکتیں، ایسا کرنے سے رک جائیں، سورت فاتحہ اور مختصر سورتیں یاد کریں، یا چند ایسی آیات یاد کر لیں جنہیں یاد کرنا آسان ہو اور آپ انہیں نماز میں پڑھ سکیں۔
تاہم نماز سے ہٹ کر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تا کہ آپ کو دین کی زیادہ سے زیادہ سمجھ آئے اور آپ کے علم میں اضافہ بھی ہو۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1690) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات