اگر میرے ناخن بہت لمبے اور میلے بھی ہیں تو کیا اس سے میرا غسل باطل ہو جائے گا؟ میں غسل کے دوران غسل کو کالعدم کر دینے والی تمام چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں، مثلاً: غسل کے دوران پانی زمین پر گرتا ہے اور اگر پانی زمین پر گرنے کے بعد اس کے چھینٹے میرے جسم پر پڑیں تو کیا غسل باطل ہو جائے گا؟
کون سی چیزیں غسل کو کالعدم کر دیتی ہیں؟
سوال: 292730
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
صحیح غسل کے لئے کچھ شرائط انتہائی لازمی ہیں اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو غسل باطل ہو جائے گا، یہ شرائط درج ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کو وہی [اجر] ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔) بخاری: (1) مسلم: (1907)
اس لیے غسل کے آغاز میں لازمی ہے کہ غسل جنابت کی نیت ہو۔
الشیخ عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نیت کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عبادت کو عادت سے ممتاز کر سکیں، عبادات کو عادات سے ممتاز کرتے ہوئے عبادت کا درجہ متعین کریں، اس کی متعدد مثالیں ہیں:
پہلی مثال: غسل کرنا، کیونکہ غسل اللہ تعالی کی بندگی کے لئے بھی کیا جاتا ہے جیسے کہ غسل جنابت وغیرہ ، جبکہ یہی غسل لوگ اپنی ذاتی ضروریات مثلاً: گرمی دور کرنے کے لئے، یا صفائی ستھرائی کے لئے یا جسم پر گرم پانی سے ٹکور کرنے کے لئے یا علاج معالجے اور دیگر مقاصد کے لئے بھی کرتے ہیں۔
تو جب غسل سے یہ تمام اہداف اور مقاصد ہو سکتے ہیں تو ایسے غسل کو ممتاز کرنا واجب ہو گیا جو صرف اللہ رب العالمین کی عبادت کے لئے کیا جائے گا۔" ختم شد
"قواعد الأحكام" (1 / 207)
دائمی فتوی کمیٹی سے فتوی پوچھا گیا کہ:
"میں نے وضو کی حالت میں غسل کیا تو اس لیے میں نے حدث اکبر [جنابت] ختم کرنے کی نیت نہ کی، غسل کرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میری حالت تو غسل سے پہلے جنابت والی تھی، تو کیا اب مجھے دوبارہ غسل کرنا ہو گا؟ یا مجھے اس غسل کی وجہ سے حالت جنابت سے پاکیزگی مل گئی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر آپ نے صفائی ستھرائی اور گرمی سے بچنے کے لئے غسل کیا تو آپ کو حدث اکبر [جنابت] ختم کرنے کی نیت سے دوبارہ غسل کرنا ہو گا؛ کیونکہ آپ نے پہلے غسل کرتے ہوئے غسل جنابت کی نیت نہیں کی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)۔
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
صالح الفوازن، عبد العزیز آل الشیخ، عبد اللہ بن غدیان، عبد الرزاق عفیفی، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة – دوسرا ایڈیشن" (4 / 133)
دوسری شرط: جس پانی سے غسل کیا جا رہا ہے وہ پاک ہو۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پانی کے اوصاف میں تبدیلی یا تو نجاست کی وجہ سے ہو گی یا غیر نجاست کی وجہ سے، تو اگر نجاست کی وجہ سے پانی کے اوصاف تبدیل ہو گئے ہیں تو علمائے کرام کا اجماع ہے کہ وہ پانی اب پاک نہیں ہے، اور نہ ہی کسی اور چیز کو پاک کر سکتا ہے۔" ختم شد
"التمهيد" (19 / 16)
چنانچہ اگر کسی شخص نے غسل شروع کیا اور پھر اسے احساس ہوا کہ پانی تو نجس ہے، تو اس پر لازمی ہے کہ وہ پاک پانی سے دوبارہ غسل کرے۔
جبکہ پانی کے ایسے چھینٹے جو غسل کرنے والے کے جسم سے گریں وہ پاک ہیں۔
جیسے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایسا بے وضو شخص جس کے اعضا پر کوئی نجاست نہیں لگی ہوئی، اگر وہ اپنے چہرے یا بازوؤں پر پانی ڈالے اور وہ پانی اس کے جسم پر اور اس کے کپڑوں پر بہہ جائے تو وہ پانی طاہر ہے؛ کیونکہ پاک پانی پاک جسم پر ہی پڑا ہے۔۔۔ اہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ وضو اور غسل کرنے والے شخص کے جسم پر موجود باقی ماندہ قطرے ، یا جسم سے کپڑوں پر پڑنے والے قطرے بھی پاک ہیں، لہذا یہ مائے مستعمل کے پاک ہونے کی دلیل ہے۔" ختم شد
"الأوسط" (1 / 288)
اس لیے اگر کوئی مسلمان پاک پانی سے غسل کرتا ہے اور یہ پانی پاک زمین پر گر کر دوبارہ سے پھر جسم پر پڑ جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے غسل پر اور بدن کے پاک ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
آج جتنے بھی غسل خانے گھروں میں بنے ہوتے ہیں ان میں قضائے حاجت کی جگہ الگ ہوتی ہے، اس لیے غسل کی جگہ بول و براز سے نجس نہیں ہوتی، چنانچہ غسل خانے کے فرش کے نجس ہونے کے متعلق محض شک قابل التفات نہیں ہو گا، تاکہ وسوسوں اور بلا وجہ کی سختی کا دروازہ بند رہے۔ اسی طرح زمین پر گرنے والے پانی کو بھی نجس نہیں کہا جائے گا، نہ ہی غسل کے دوران زمین پر گر کر دوبارہ جسم پر پڑنے والے چھینٹوں کو ناپاک کہیں گے، تاہم اگر غسل کی جگہ کے نجس کا علم ہو جائے تو پھر یہ چھینٹے ناپاک ہوں گے۔
تیسری شرط: پانی جسم کے تمام حصوں تک پہنچے۔
وہ اس طرح کہ جسم پر کوئی ایسی چیز نہ لگی ہوئی ہو جس سے جلد یا بالوں تک پانی پہنچنا ممکن نہ رہے؛ کیونکہ جنابت میں سارا جسم جنبی ہوتا ہے۔
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ جنابت کا تعلق سارے جسم سے ہوتا ہے" ختم شد
"المجموع" (1 / 467)
چنانچہ اگر جلد پر مثلاً: طبی پلاسٹر لگا ہوا ہے یا بالوں یا جسم پر جل وغیرہ لگی ہوئی ہے جس سے پانی جسم تک یا بالوں تک نہیں پہنچ پاتا تو ایسی حالت میں غسل صحیح نہیں ہو گا، نیز جب تک ان اشیا کو زائل نہیں کریں گے غسل صحیح نہیں ہو گا۔
جب لمبے ناخنوں کے نیچے میل کچیل گھسا ہوا ہو تو عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ناخن کے نیچے تک پانی نہیں پہنچ پاتا کیونکہ پانی لطیف چیز ہے، اور اگر پانی ناخن کے نیچے نہ پہنچ پائے تو یہ انتہائی معمولی بات ہے اتنی سی جگہ اگر خشک رہ بھی جائے تو ایسی چیزوں کو معاف کر دیا جاتا ہے، ویسے بھی یہ معاملہ لوگوں کو در پیش آتا رہتا ہے اور شریعت نے بھی غسل اور وضو کے دوران ناخن کے نیچے پانی پہنچنے کی تاکید کرنا کا حکم نہیں دیا۔
جیسے کہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ناخنوں کے نیچے میل ہو اور یہ میل معمولی ہونے کی وجہ سے ناخن کے نیچے پانی پہنچنے دے تو وضو صحیح ہے۔
اور اگر میل کی وجہ سے پانی ناخن کے نیچے نہ پہنچے تو متولی [ایک فقیہ کا نام] نے قطعی فیصلہ دیا ہے کہ اس کا وضو نہیں ہو گا، نہ ہی حدث کا خاتمہ ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے اگر یہ میل بدن کے کسی اور حصے میں ہوتا [تو وضو نہ ہوتا، نہ ہی اس کے حدث کا خاتمہ نہ ہوگا]۔
جبکہ غزالی نے احیاء العلوم میں اس کے وضو ہو جانے کا قطعی فیصلہ دیا ہے، نیز یہ بھی کہا ہے کہ اس کا غسل اور وضو دونوں ہی صحیح ہیں، ضرورت کے وقت اتنی کمی کو معاف قرار دیا جائے گا، انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ناخن کاٹنے کا حکم دیا کرتے تھے اور ناخنوں کے نیچے میل کو ناپسند بھی کرتے تھے، لیکن آپ نے کبھی انہیں نمازیں دہرانے کا حکم نہیں دیا۔" ختم شد
"المجموع" (1 / 287)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ناخن کے معمولی میل نے پانی نہ پہنچنے دیا تو اس کا وضو اور غسل صحیح ہیں۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (5 / 303)
اس بارے میں مزید کے لئے آپ سوال نمبر: (265777) اور (27070) میں سے پہلے نکتے کا مطالعہ کریں۔
چوتھی شرط: اس شرط کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، اور وہ یہ ہے کہ غسل کے اجزا میں تسلسل ہو، لمبا انقطاع نہ ہو، اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اکثر اہل علم غسل کے اجزا میں تسلسل کے انقطاع کی وجہ سے غسل کو باطل قرار نہیں دیتے، تاہم ربیعہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: جو شخص عمداً یہ کام کرے تو غسل دوبارہ کرے گا، اسی کے امام لیث قائل تھے، جبکہ امام مالک سے اس میں مختلف آرا منقول ہیں، امام شافعی کے شاگردوں سے ایک توجیہ منقول ہے۔
تاہم جمہور کا موقف زیادہ بہتر ہے؛ کیونکہ اس نے غسل کیا ہے، اور ویسے بھی اس میں ترتیب واجب نہیں ہے، اس لیے غسل میں تسلسل واجب نہیں ہے۔" ختم شد
"المغني" (1 / 291 – 292)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "زاد المستقنع" کی شرح میں کہتے ہیں:
"مؤلف رحمہ اللہ کی گفتگو سے واضح تو یہی ہوتا ہے کہ: غسل کرنے کے لئے تسلسل ضروری نہیں ہے، اگر اپنے جسم کا کچھ حصہ دھو لے اور بقیہ حصہ عرف کے مطابق کافی دیر کے بعد دھوئے تو اس کا غسل صحیح ہے، یہی [حنبلی] فقہی موقف ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: غسل کرتے ہوئے تسلسل قائم رکھنا واجب ہے، یہ موقف امام احمد سے ایک روایت میں منقول ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہ امام احمد کے شاگردوں کا موقف ہے۔۔۔
تو یہ موقف -تسلسل کا ضروری ہونا- زیادہ صحیح ہے ؛ کیونکہ غسل ایک عبادت ہے اس لیے ضروری ہے کہ غسل کے تمام اجزا تسلسل کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں۔
تاہم اگر کسی عذر کی بنا پر تسلسل قائم نہ رکھ سکے؛ مثلاً: غسل کے دوران پانی ختم ہو جاتا ہے اور پھر کچھ دیر کے بعد پانی مل جائے تو اب اس پر باقی اعضا کو دوبارہ دھونا ضروری نہیں ہے، بلکہ وہ بقیہ غسل ہی مکمل کرے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (1 / 365)
اس لیے مسلمان کے لئے محتاط عمل یہی ہے کہ غسل میں تسلسل قائم رکھے اور درمیان میں لمبا فاصلہ مت شامل کرے، تا کہ اس اختلافی موقف سے بچ سکے، اور اس کی نماز متفقہ طور پر صحیح ہو اور مشکوک نہ ہو۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات