ہندوستان میں ایسی کمپنیاں ہیں جو لوگوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتی ہیں، اور ہر ماہ کمپنی کچھ منافع دے گی۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ کمپنیاں ہیروں ، سونے اور اسکول وغیرہ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتی ہیں ۔ چند روز قبل ان میں سے ایک کمپنی ہیرا گولڈ کے مالک کو گرفتار کیا گیا ہے اب ہیرا گولڈ میں سرمایہ کاری کرنے والے بہت سے لوگ پریشان ہیں ۔ آئی ایم اے بنگلور کے نام سے ایک اور کمپنی ہے جس کا ذکر خبروں کی نشریات میں بھی کیا گیا ہے۔ بعض علماء نے کئی بار کہا ہے کہ اس قسم کی کمپنی میں سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جبکہ دیوبندی علماء نے وسیع تحقیق کے بعد آئی ایم اے کی ملکیت والی کسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کے گرین سگنل دے دیا ہے۔ کیا اس قسم کی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا اسلام کی رو سے جائز ہے یا حرام؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے بتائیں۔
آئی ایم اے (IMA) بنگلور کمپنی اور دیگر ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی شرائط
سوال: 299171
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم ان مخصوص کمپنیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ وہ کتنی قابل اعتماد ہیں یا وہ اپنے لین دین میں کس حد تک شرعی اصولوں پر عمل کرتی ہیں۔
لیکن عمومی طور پر : مضاربت جائز ہے، اور مضاربت کی بنیاد پر کاروباری شراکت قائم کر کے کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ درج ذیل شرائط پوری کریں:
1. کمپنی جائز منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے، جائز کاروباری منصوبوں میں سونے کی خرید و فروخت بھی شامل ہے، بشرطیکہ سونا نقدی یا چاندی کے عوض بیچتے وقت موقع پر تبادلہ کر لیا جائے، اور اگر سونے کو سونے کے عوض فروخت کیا جائے تو پھر موقع پر تبادلے کے ساتھ ساتھ یکساں وزن ہونا بھی لازمی ہے۔ مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (34325 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
2. رأس المال کی کوئی ضمانت نہ ہو، اس لیے کمپنی نقصان کی صورت میں سرمایہ واپس کرنے کا عہد نہ کرے، الا کہ کمپنی مقررہ حدود سے تجاوز کر گئی ہو یا کمپنی نے غفلت برتی ہو۔ اس لیے کہ اگر رأس المال کی تمام صورتوں میں ضمانت ہو تو یہ لین دین در حقیقت قرض ہے اور قرض سے جو کچھ منافع ہو گا وہ سود شمار ہو گا ۔
3. منافع معلوم اور متفقہ ہونا چاہیے، لیکن اس کی مقدار سرمایہ کے تناسب سے نہیں بلکہ منافع کے تناسب سے ہو۔ لہذا، مثال کے طور پر، شراکت داروں میں سے ایک کو ایک تہائی، یا نصف، یا 20فیصد منافع ملے اور بقیہ دوسرے کو ملے۔
چنانچہ منافع کی متعین رقم کے ساتھ معاہدہ صحیح نہیں ہو گا ، یا رأس المال کے تناسب سے منافع مقرر کیا جائے، یا منافع غیر متعین ہو تو فقہائے کرام نے ان صورتوں میں اس قسم کی کاروباری شراکت کو فاسد قرار دیا ہے۔
چنانچہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام علمائے کرام جن سے ہم نے علم حاصل کیا ہے اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مضاربت میں کوئی ایک فریق یا دونوں فریق یہ شرط لگائیں کہ انہیں مخصوص اور معین رقم دی جائے گی تو وہ مضاربت فاسد ہے۔ جن فقہائے کرام سے ہمیں یہ موقف معلوم ہوا ہے ان میں مالک، الاوزاعی، شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے شامل ہیں۔" "المغنی " (5/23)
اسی طرح "مطالب اولی النھی" (3/517) میں ہے کہ:
اگر مضاربت کرنے والا کہے: یہ لے لو اور اس سے تجارت کرو، تو تمہیں نفع میں سے حصہ ملے گا، یا تم نفع میں شریک ہو گے، یا تمہیں منافع میں سے کچھ حصہ ملے گا، یا ایسی ہی کوئی بات کرے تو یہ مضاربت درست نہیں ؛کیونکہ اس میں نفع کا تناسب نامعلوم ہے، اور مضاربت کے صحیح ہونے کے لیے منافع کا تناسب معلوم ہونا چاہیے۔" ختم شد
اس لیے اگر یہ شرائط موجود ہوں تو سرمایہ کاری کرنا ٹھیک ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات