0 / 0

بیماری کی وجہ سے رکوع اور سجدوں کی تعداد بھول جاتا ہے تو کیا سجدہ سہو کرے؟

سوال: 299278

مجھے ایک مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں نے رکوع کیا ہے یا نہیں؟ سجدے دو کیے ہیں یا ایک؟ میں نے تکبیر بھی کہی ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ یہ بیماری بسا اوقات تو کم ہو جاتی ہے لیکن کبھی زیادہ ہو جاتی ہے، پھر یہ بھی مسئلہ ہے کہ اگر میں نماز کئی بار دہرا بھی لوں تب بھی یہی مسئلہ آڑے آتا ہے، مجھے ایسے لگتا ہے کہ جس وقت میں رکوع یا سجدہ کرتا ہوں تو میری یاد داشت کھو جاتی ہے۔ تو میں عام طور پر یوں کرتا ہوں کہ جو میرے ذہن میں زیادہ سے زیادہ عدد ہو اسی کے مطابق نماز پڑھ لیتا ہوں اور سجدہ سہو نہیں کرتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔ تو کیا اس صورت میں میری نمازیں صحیح ہیں؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

الحمدللہ:

اگر کسی بیماری کی وجہ سے زیادہ شکوک اور وسوسے آتے ہوں تو پھر ان کی طرف دھیان تک نہیں دیا جاتا اور ایسے میں سجدہ سہو کرنا بھی شریعت میں نہیں ہے۔

تو آپ اپنی نماز پڑھتے جائیں اور ذہن میں موجود زیادہ سے زیادہ تعداد کو بنیاد بنائیں، یعنی آپ شک میں مت پڑیں۔ جمہور فقہائے کرام کا یہی موقف ہے۔

چنانچہ حنفی فقیہ کاسانی رحمہ اللہ محمد بن حسن رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اگر کوئی نمازی اپنے وضو کے کسی حصے کے متعلق شک میں مبتلا ہو تو شک کے آغاز میں ہی اس جگہ کو دھو لے؛ کیونکہ اسے اس عضو کا وضو نہ ہونے میں یقین ہے جبکہ اسے دھونے میں اسے شک ہے۔

یہاں مؤلف کا یہ کہنا کہ: ” شک کے آغاز میں ہی اس جگہ کو دھو لے ” کا مطلب یہ ہے کہ اسے عام طور پر اس جگہ کو دھونے میں شک نہیں ہوتا، یہاں یہ بالکل مراد نہیں ہے کہ اس سے پہلے اسے کبھی شک ہوا ہی نہیں۔ اگر اسے شکوک بہت زیادہ آتے ہیں تو ان کی جانب دھیان مت دے؛ کیونکہ یہ وسوسہ ہے اور وسوسے کا علاج یہ ہے کہ اس کی جانب بالکل بھی دھیان نہ دیا جائے؛ اس لیے اگر انسان وسوسے کے پیچھے چل پڑے تو [وسوسے کو دور کرتے کرتے ]نماز ادا کرنے کا مرحلہ ہی نہیں آئے گاجو کہ درست نہیں ہے۔” ختم شد
“بدائع الصنائع” (1/ 33)

اسی طرح مالکی فقیہ صاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر غیر وہمی آدمی کو کوئی عضو دھونے کے متعلق شک پڑ جائے: اگر غیر وہمی آدمی کو اپنا کوئی عضو دھونے کے متعلق شک پڑ جائے کہ وہاں تک پانی پہنچا یا نہیں تو اس عضو پر پانی ڈال کر اسے ملنا لازمی ہو جائے گا۔

جبکہ وہمی آدمی -یعنی جسے بہت زیادہ شکوک آتے ہیں-کو شک پڑے تو پھر شک کی طرف دھیان نہ دے، کیونکہ اگر یہ ان وسوسوں کے پیچھے پڑ گیا تو سرے سے دین کو ہی تباہ کر دے گا۔ ہم اس بیماری سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں۔”
ماخوذ از: “حاشية الصاوي على الشرح الصغير” (1/ 170)

جبکہ حنبلی فقیہ شیخ مصطفی رحیبانی اپنی کتاب: “مطالب أولي النهى” (1/507) میں کہتے ہیں:
“اگر شک بہت زیادہ آنے لگے کہ وسوسے کی طرح ہو جائے تو پھر سجدہ سہو کرنا شرعی عمل نہیں ہے، لہذا شک ہو تو اس کی جانب دھیان نہ دے ۔ اسی طرح اگر وضو، غسل اور نجاست کی صفائی ستھرائی ، اور تیمم کے متعلق شک پیدا ہو تو اس پر بھی دھیان مت دے؛ کیونکہ اس کے پیچھے لگنے سے انسان ذہنی تناؤ میں مبتلا ہو جائے گا، اور نماز پوری ہونے کے باوجود اضافہ کر بیٹھے گا، اس لیے ایسے شکوک کی طرف دھیان نہ دینا ضروری ہے، اس کی طرف بالکل توجہ نہ دے۔” ختم شد

تو خلاصہ یہ ہوا کہ:

آپ کی نماز صحیح ہے، نیز ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو اس بیماری سے شفا دے اور آپ کو معاف فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android