طلاق کتنی قسم کی ہوتی ہے؟
طلاق کی اقسام
سوال: 307000
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مختلف اعتبار سے طلاق کی متعدد اقسام ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
اول:
طلاق کے حکم کے اعتبار سے طلاق کی اقسام:
فقہائے کرام طلاق کے شرعی حکم کے اعتبار سے طلاق کو متعدد اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
1- شریعت کے مطابق جائز طلاق: اسی کو سُنّی طلاق بھی کہتے ہیں، سنی طلاق یہ ہوتی ہے کہ بیوی کو حمل کی حالت میں یا ایسے طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے جس میں ہمبستری نہ کی ہو۔
2- شریعت کے مطابق ممنوعہ طلاق: اسی کو بدعی طلاق بھی کہتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں:
الف: طلاق دینے کے وقت کے اعتبار سے بدعی طلاق : مثلاً اپنی بیوی کو حمل واضح ہونے سے پہلے طلاق دے اور اس کی بیوی کی عدت حیض آنے کی صورت میں حیض کے ذریعے شمار ہو، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں خاوند نے جماع کیا ہو۔
چنانچہ اگر حمل واضح ہو جائے تو پھر طلاق دینا جائز ہے چاہے اس نے اس طہر میں جماع بھی کر لیا ہو۔ اسی طرح ایسی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دینا جس پر کوئی عدت ہو ہی نہ جیسے غیر مدخولہ بیوی تو اگر اسے حیض کی حالت میں بھی طلاق دے دے تو یہ سنی طلاق ہے۔ یا اسی طرح اپنی ایسی بیوی کو طلاق دے جسے ابھی حیض نہیں آیا، مثلاً: بیوی کم سن ہے یا عمر رسیدہ ہے تو انہیں طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ب : طلاق کی تعداد کے اعتبار سے بدعی طلاق، مثلاً: ایک سے زیادہ طلاق دے، مثلاً: خاوند کہے کہ: تجھے دو طلاق۔ یا کہے: تجھے تین طلاق۔ یہ طلاق بدعی اس لیے ہے کہ صرف ایک طلاق دینا سنت ہے۔
اہل علم کا بدعی طلاق کے واقع ہونے کے متعلق اختلاف ہے، ہمارے ہاں مختار موقف یہ ہے کہ بدعی طلاق واقع نہیں ہوتی ، نیز تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔
دوم:
طلاق کے الفاظ کے اعتبار سے طلاق کی اقسام :
فقہائے کرام طلاق کے الفاظ کے اعتبار سے طلاق کو صریح اور کنایہ میں تقسیم کرتے ہیں۔
طلاقِ صریح وہ ہوتی ہے جس کو سن کر طلاق کے علاوہ کچھ اور نہ سمجھا جائے، مثلاً: خاوند اپنی بیوی سے کہے: تجھے طلاق ہے، یا تو مطلقہ ہے، یا میں نے تجھے طلاق دی۔ تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی چاہے خاوند طلاق دینے کی نیت کرے یا نہ کرے۔
طلاقِ کنایہ: ایسے الفاظ جن سے طلاق کے ساتھ کچھ اور مراد بھی لیا جا سکے، مثلاً: خاوند اپنی بیوی سے کہے: تو آزاد ہے، یا کہے: تم مجھ سے بری الذمہ ہو، تم اپنا فیصلہ خود کر لو، تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے، یا تم میکے چلی جاؤ، یا مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں یا ایسا کوئی جملہ استعمال کرے۔
طلاقِ کنایہ میں نیت معتبر ہوتی ہے، چنانچہ اگر خاوند طلاق کی نیت سے کنایہ کے الفاظ بولے تو طلاق ہو جائے گی وگرنہ طلاق نہیں ہو گی۔
سوم:
طلاق کے نتائج کے اعتبار سے طلاق کی اقسام:
طلاق دینے پر طلاق کے نتائج کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: طلاق رجعی، رجعی طلاق وہ ہوتی ہے جس میں خاوند اپنی بیوی سے کہے: تجھے پہلی طلاق، یا [پہلی طلاق سے رجوع کے بعد کہے:] تجھے دو سری طلاق اور خلع کے طور پر معاوضہ بھی نہ لے، تو ایسی صورت میں بیوی کی عدت مکمل ہونے سے پہلے خاوند کے لیے رجوع کرنا جائز ہے۔
دوسری قسم: طلاق بائن، حتمی جدائی کرنے والی طلاق کو طلاق بائن کہتے ہیں اور یہ جدائی دو قسم کی ہوتی ہے:
الف: بینونہ کبری[یعنی: ناقابل رجوع جدائی]: یہ تب ہوتی ہے جب خاوند اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دے؛ ایسی صورت میں اب اس مرد سے رجوع تبھی ہو سکتا ہے جب بیوی کسی اور سے نکاحِ صحیح کرے [مثلاً: حلالہ نہ ہو۔ مترجم] پھر وہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے چھوڑ دے۔
ب: بینونہ صغری [یعنی: قابل رجوع جدائی]: یہ تب ہوتی ہے جب خاوند اپنی بیوی کو پہلی طلاق دے، یا دوسری طلاق بھی دے دے اور دونوں صورتوں میں عدت ختم ہو جائے، یا بیوی کو معاوضہ لے کر طلاق دے جسے خلع بھی کہتے ہیں، یا نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ دخول ہونے سے پہلے طلاق دے دے، تو ان تمام صورتوں میں خاوند بیوی سے رجوع کر سکتا ہے لیکن رجوع کے لیے نیا نکاح اور نیا حق مہر ہو گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (258878 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چہارم:
طلاق کے معلق اور نافذ ہونے کے اعتبار سے طلاق کی اقسام۔
اس اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں:
1-طلاقِ نافذ، یہ اس وقت ہوتی ہے جب خاوند اپنی بیوی سے کہے تجھے طلاق ہے۔ یا کوئی کنایہ والا لفظ طلاق کی نیت سے بول کر طلاق دے۔ یعنی طلاق کو کسی اور شرط کے ساتھ معلق نہ رکھے۔
2-کسی بات سے مشروط طلاق، اس کی آگے پھر تین قسمیں ہیں:
الف: طلاق کو شرطِ محض کے ساتھ معلق کرے، تو ایسی صورت میں طلا ق ہو جائے گی چاہے کچھ بھی ہو، مثلاً: خاوند کہے: جب سورج غروب ہو گیا تو تجھے طلاق ہے۔ چنانچہ سورج غروب ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی؛ کیونکہ خاوند نے طلاق کو شرط محض کے ساتھ معلق کیا تھا۔
ب: یمینِ محض کے ساتھ طلاق کو معلق کیا جائے، تو اس صورت میں طلاق نہیں ہو گی، اور خاوند کو ایسی بات کرنے پر قسم کا کفارہ دینا ہو گا، مثلاً: خاوند بیوی سے کہے: اگر میں نے زید سے بات کی تو میری بیوی کو طلاق۔ یہاں خاوند یہ چاہتا ہے کہ زید سے بات نہ کرے، تو یہ یمینِ محض ہے؛ کیونکہ یہ الفاظ کہتے ہوئے خاوند کا مقصد یہ تھا کہ وہ زید سے بات نہیں کرے گا؛ اس لیے یہ یمینِ محض ہے، ویسے بھی زید سے بات کرنے اور بیوی کو طلاق دینے کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
ج: خاوند کی بات شرطِ محض اور یمینِ محض دونوں کا احتمال رکھتی ہو تو ایسی صورت میں خاوند کی نیت کو دیکھا جائے گا، مثال کے طور پر خاوند بیوی سے کہے: اگر تو گھر سے نکلی تو تجھے طلاق ہے، تو یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ خاوند نے شرطِ محض کی نیت کی ہو، یعنی اگر بیوی گھر سے چلی گئی تو اسے بیوی کی کوئی ضرورت نہیں۔ تو پھر طلاق واقع ہو جائے گی، اس صورت میں خاوند کی طرف سے ان الفاظ کا مقصد طلاق ہو گا۔
یا پھر اس جملے کا مقصد طلاق دینا نہیں تھا، بلکہ اسے اپنی بیوی سے محبت ہے اور بیوی کے گھر سے باہر جانے کے باوجود بھی وہ اکٹھے رہنا چاہتا ہے، طلاق دینا نہیں چاہتا اس جملے کا مقصد بیوی کو گھر سے باہر جانے سے روکنا تھا تو خاوند نے بیوی کو دھمکی دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے، تو ایسی صورت میں اگر بیوی گھر سے باہر چلی جاتی ہے تو پھر اسے طلاق نہیں ہو گی؛ کیونکہ خاوند کا مقصد طلاق دینا نہیں تھا بلکہ اس جملے سے یمینِ محض مراد تھی۔
مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں: "الشرح الممتع" (13/126)
ہم آپ کو اس حوالے سے ڈاکٹر عوض شہری حفظہ اللہ کا ماسٹرز کا تحقیقی مقالہ "طلاق" پڑھنے کی نصیحت کریں گے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات