فزکس کے لیکچر میں اپنے استاد کے ساتھ پانچ مقاصد شریعت کے حوالے سے گفتگو ہوئی، انہوں نے کہا کہ: تحفظ جان کو تحفظ دین پر ترجیح دی جائے گی، جبکہ میں نے کہا کہ تحفظ دین کو تحفظ جان پر ترجیح دی جائے گی، انہوں نے میری بات کو تسلیم نہیں کیا، آپ سے گزارش ہے کہ مجھے ایسے دلائل اور ان کی وضاحت عنایت فرمائیں جن سے میں انہیں قائل کر سکوں، اور مصادر و مراجع بھی بتلا دیں۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے
اول:
مقاصد شریعت یا ضروریات خمسہ یہ ہیں: دین، جان، عقل، نسب، مال ۔ بعض نے عزت کا بھی اضافہ کیا ہے۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی معتبر مصلحت کی؛ مضبوطی اور کمزوری کے اعتبار سے یا انسان کی اس مصلحت کی طلب کے لحاظ سے تین اقسام ہو سکتی ہیں: ضرورت ، سہولت اور آسائش۔
اول: ضرورت: وہ ہے جس چیز کے بغیر دین و دنیا کے فوائد حاصل نہ ہوں، چنانچہ اگر وہ چیز نہ ہو تو دنیاوی امور صحیح نہ چلیں بلکہ ان میں خرابی ، تباہی اور زندگی کا خاتمہ ہو، جبکہ اخروی اعتبار سے یہ ہو کہ انسان کی نجات ناپید ہو جائے، جنت نہ مل سکے، اور انسان واضح خسارہ پائے۔
اسی ضرورت کے تحفظ کی ضمانت مقاصد خمسہ دیتے ہیں، اور یہ مقاصد خمسہ [جنہیں مقاصد شریعت بھی کہتے ہیں۔ مترجم] یہ ہیں: 1) دین کی حفاظت قتل اور قتال کو شریعت کا حصہ بنا کر یقینی بنائی گئی، وہ اس طرح کہ قتل کی وجہ سے ارتداد جیسے دیگر موجبات قتل بننے والے جرائم کی روک تھام کر کے دینی مصلحت حاصل کی گئی، جبکہ قتال کو شریعت کا حصہ بنا کر جنگوں میں جہاد کی مصلحت حاصل کی گئی۔ 2) جان کی حفاظت قصاص کے ذریعے یقینی بنائی گئی۔ 3) عقل کی حفاظت نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دے کر کی گئی۔ 4) نسل کی حفاظت زنا کو حرام کر کے اور پھر اس زنا کار کی سزا مقرر کر کے کی گئی۔ 5) مال کی حفاظت کے لیے چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی گئی ہے، اور دیگر کسی صورت میں مالی نقصان پر مجرم کے ذمہ اس کی ضمانت ڈالی گئی ہے۔ یہ سب کے سب مقاصدِ شریعت اللہ تعالی کے ایک ہی فرمان میں موجود ہیں: يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ ترجمہ: اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں سے گھڑ لیں ۔ [الممتحنہ: 12]
حنبلی فقیہ طوفی اور انہی کے نقش قدم پر سبکی رحمہما اللہ نے چھٹی چیز بھی اس میں شامل ہے کہ : عزت کا تحفظ۔ کیونکہ اصحاب عقل و خرد کی عادت ہے کہ وہ اپنی عزت کو بچانے کے لیے اپنی جان اور دولت دونوں کی بازی لگا دیتے ہیں، تو جس چیز کی حفاظت کے لیے ضروری چیز کو قربان کیا جا رہا ہے اسے تو بالاولی ضروری ہونا چاہیے۔" ختم شد
ماخوذ از: "تشنيف المسامع شرح جمع الجوامع" (3/ 15)
دوم:
مشہور یہی ہے کہ دین کی حفاظت جان سے بڑھ کر کی جائے گی، اسی لیے تو جہاد فی سبیل اللہ کو شریعت میں شامل کیا گیا؛ کیونکہ جہاد دین کے تحفظ کے لیے ہے، حالانکہ جہاد میں انسانی جان کے ساتھ ساتھ دولت بھی لگتی ہے۔
جلال الدین محلی رحمہ اللہ جمع الجوامع کی شرح: (3/ 322) میں لکھتے ہیں:
"ضروری چیز وہ ہوتی ہے جو کہ ضرورت کی حد تک ضروری ہو، مثلاً: تحفظِ دین؛ کہ اس کے لیے کافروں سے قتال ، اور داعیانِ بدعت کو سزا دینا شریعت میں شامل کیا گیا ہے۔ تحفظِ جان کے لیے قصاص کو شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے، تحفظِ عقل کے لیے شراب نوشی کی سزا مقرر کی گئی ہے، تحفظ نسل کے لیے زنا کی حد شریعت میں شامل کی گئی، تحفظ مال کے لیے چوری اور ڈاکہ زنی کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ایسے ہی تحفظِ عزت کے لیے تہمت کی سزا شریعت میں مقرر کی گئی ۔ یہ آخری بات جو مصنف نے ذکر کی ہے یہ طوفی وغیرہ کی جانب سے اضافہ ہے، اسے بیان کرتے ہوئے "واؤ" حرف عطف استعمال کیا گیا ہے بقیہ کے لیے "ف" حرف عطف استعمال ہوا ہے، یہ بتلانے کے لیے کہ یہ تحفظ مال کے درجے میں ہیں، جبکہ بقیہ سب کا درجہ ترتیب وار پہلے والے سے قدرے کم ہے۔" ختم شد
اسی بنا پر مراقی السعود میں ہے کہ:
دينٌ فنفسٌ ثم عقلٌ نسبُ * مالٌ؛ إلى ضرورةٍ تنتسبُ
ضروریات سے تعلق رکھنے والی چیزیں: دین، جان، عقل، نسب، اور مال ہیں۔
ورتِّبنْ، ولتعطفنْ مُساويا * عِرْضا على المال، تكُنْ مُوافيا
انہیں لازما یہی ترتیب دے ، جبکہ عزت کو مال کے مساوی سمجھ تو حق ادا کرنے والا ہو گا۔
فحفظها حَتْمٌ على الإنسان * في كل شِرْعَةٍ من الأديانِ
ان چیزوں کی حفاظت انسان پر تمام شریعتوں اور ادیان میں لازم ہے۔
مزید کے لیے دیکھیں: مراقي السعود إلى مراقي السعود، ص349
ان میں ترتیب اجتہادی مسئلہ ہے، جب ان کے عملی پہلو سامنے آتے ہیں تو ان کی ترتیب آگے پیچھے ہو جاتی ہے۔
ابن امیر الحاج رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر ان ضروریات خمسہ کا باہمی تعارض ہو جائے تو تحفظ دین کو دیگر ضروریات خمسہ پر ترجیح حاصل ہو گی؛ کیونکہ اصل مقصود ہی یہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔[الذاریات: 56] جبکہ دیگر تمام ضروریات اسی تحفظ دین کی وجہ سے ضروریات میں شامل ہیں۔ ویسے بھی تحفظ دین کا نتیجہ سب سے کامل ترین نتیجہ ہے یعنی اس کی بدولت رب العالمین کے ہاں دائمی سعادت ملے گی ۔
پھر اس کے بعد جانی تحفظ کو نسب، عقل اور مال کے تحفظ پر ترجیح حاصل ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جان کے تحفظ سے دینی تحفظ بھی ملے گا؛ کیونکہ اگر جان ہو گی تو عبادت ہو گی۔
پھر اس کے بعد نسب کے تحفظ کو بقیہ ضروریات پر فوقیت حاصل ہو گی؛ کیونکہ نسب کے تحفظ کی وجہ سے ہی تو نو مولود بچے کی حفاظت ممکن ہو گی؛ اس لیے کہ جب زنا حرام قرار دے دیا گیا تو اب اختلاط نسب نہیں ہو گا، لہذا بچہ صرف ایک شخص کی طرف ہی منسوب ہو گا، تو باپ اپنے بچے کی حفاظت کرے گا۔ اگر کسی ایک شخص کی طرف نسبت نہ ہو تو کوئی بھی اس نو مولود کی حفاظت نہیں کرے گا اور بچہ فوت ہو جائے گا؛ کیونکہ بچہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔
پھر اس کے بعد عقل کے تحفظ کو مال کی حفاظت پر ترجیح دی جائے گی؛ کیونکہ اگر عقل نہ ہو تو جان کو خطرہ لاحق ہو گا، حتی کہ اگر عقل نہ ہو تو انسان ڈنگروں سے جا ملتا ہے، اور وہ شرعی احکامات کا مکلف بھی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی کی عقل مجرمانہ زیادتی کی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس پر پوری انسانی جان والی مکمل دیت لازم ہو گی۔
میرے مطابق: مذکورہ بالا ترتیب کے لیے جو توجیہات پیش کی گئی ہیں انہی توجیہات کی وجہ سے ان امور کی ترتیب کسی اور انداز سے بھی لگ سکتی ہے۔ اس کے لیے معمولی سے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
پھر اس کے بعد مال کا تحفظ ہو گا، بعض کہتے ہیں کہ: مال کے تحفظ کو صرف جان، عقل اور نسب ہی نہیں بلکہ دین کے تحفظ پر بھی ترجیح حاصل ہو گی، متعدد اہل علم اس کے قائل ہیں۔ تو مصنف نے یہاں ادنیٰ چیز کے ذریعے اعلی چیز کے تحفظ پر توجہ دلائی ہے، یعنی جب ادنی چیز کا تحفظ ضروری ہے تو اعلی کا تو بالاولی تحفظ ہونا چاہیے۔ یہاں یہ بھی اچھا تھا کہ ان چاروں چیزوں کو تحفظ دین پر ترجیح حاصل ہوتی؛ کیونکہ یہ چاروں چیزیں انسان کا حق ہیں جن کی بنیاد محدود وقت میں ادائیگی اور ان حقوق کے مطالبہ کرنے کے عوامل پر ہوتی ہے۔ اور اگر ان چاروں میں سے کوئی بھی چیز دستیاب نہ ہو تو انسان کو نقصان ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالی کا حق آسانی اور معافی تلافی پر مبنی ہوتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنے حقوق سے بالکل بے نیاز ہے، اور اگر حقوق اللہ ضائع بھی ہوں تو اللہ تعالی کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ اور با جماعت نماز جو کہ خالصتا دینی امور ہیں انہیں مال کی حفاظت کی غرض سے چھوڑا جا سکتا ہے جو کہ خالصتا دنیاوی معاملہ ہے۔ ایسے ہی ابو یوسف کے ہاں ایک درہم کے لیے بھی نماز توڑی جا سکتی ہے، مطلب یہ ہے کہ: اگر خود نمازی کا یا کسی اور کا ایک درہم چوری کیا جا رہا ہو تو وہ اپنی نماز توڑ سکتا ہے چاہے نماز فرض ہو یا نفل۔" ختم شد
"التقرير والتحبير" (3/ 231)
آپ خود دیکھیں کہ تحفظ جان کو تحفظ دین پر ترجیح دینا بڑا قوی موقف ہے، اس کی بہت سی نظائر بھی مل سکتی ہیں، مثلاً: جب کسی کو جبرا کفریہ کلمہ کہنے پر مجبور کیا جائے تو کفریہ کلمہ زبان سے ادا کرنا جائز ہے تا کہ انسانی جان بچ سکے۔ ایسے ہی مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے مردار کھا سکتے ہیں اور شراب پی سکتے ہیں، اسی طرح اگر اپنے بارے میں کسی دشمن کا خوف ہو یا خونخوار درندے کا ڈر ہو تو جمعہ یا نماز با جماعت چھوڑی جا سکتی ہے۔
البتہ آمدی رحمہ اللہ نے تحفظِ دین کو مقدم رکھنے پر خوب تفصیلی گفتگو کی ہے، اور اس کے خلاف آنے والے تمام دلائل کا جواب بھی دیا ہے۔
جیسے کہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر یہ کہا جائے کہ: انسانی جان کے تحفظ کا جو بھی ذریعہ ہو گا اسے دیگر تمام پر ترجیح حاصل ہو گی اور اسے مقدم رکھا جائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مقاصد حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ دیگر مقاصد اور ضروریات کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اور حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح حاصل ہوتی ہے؛ کیونکہ ان کی ادائیگی کا وقت محدود ہوتا ہے، اور کوئی بھی بندہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا ، جبکہ حقوق اللہ کی بنیاد معافی تلافی اور آسانی پر ہوتی ہے، پھر ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو حقوق اللہ کے ضائع ہونے سے اللہ تعالی کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا، جبکہ انسان کا حق ضائع ہو تو اسے نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے حقوق العباد کا تحفظ ضروری ہو گا کہ جس کے ادا نہ کرنے سے مستحق کا نقصان ہوتا ہے، اور ایسے حق کو تحفظ دینا ضروری نہیں ہو گا جس کے مستحق کو عدم ادائیگی پر نقصان نہ ہو۔ اسی لیے ہم نے حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح دی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ایک ہی جرم میں بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ہی اکٹھے ہو جائیں اور دونوں حقوق کی ادائیگی نہ ہو سکتی ہو، مثلاً: ایک شخص نے کفر کیا اور پھر عمداً قتل بھی کیا، تو ہم ایسے شخص کو قصاصاً قتل کریں گے، کافر ہونے کی وجہ سے نہیں۔
ایسے ہی ہم نے جانی مصلحت کو دینی مصلحت پر ترجیح دی ہے، مثلاً: مسافر کو نماز کی دو رکعتیں معاف ہیں، اور اسی طرح روزہ رکھنا بھی معاف ہے۔ ایسے ہی مریض شخص کھڑا نہ ہو سکے تو اس کے لیے نماز میں قیام معاف ہے، اور اسی طرح روزے بھی بعد میں رکھ سکتا ہے۔ ایسے ہی ہم نے جانی تحفظ کو نماز کی مصلحت پر ترجیح دی ہے کہ پانی میں ڈوبتے شخص کو بچانا نماز پڑھنے سے زیادہ ضروری ہے۔ بلکہ اسے بھی زیادہ مؤثر مثال یہ ہے کہ ہم نے مالی مصلحت کو دینی مصلحت پر ترجیح دی ہے کہ ہم نے معمولی مال بچانے کے لیے بھی جمعہ یا با جماعت نماز ترک کرنے کی اجازت دی ہے، ایسے ہی جہاں کہیں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی ذمی بن کر رہ رہے ہوں تو مسلمانوں کی کوئی مصلحت ان کافر ذمیوں سے تعلق رکھتی ہو تو مسلمانوں کے مفاد کی خاطر ان کافروں کے ایسے کفر کو بھی برداشت کیا گیا ہے جو کہ قتل کرنے کا موجب بنتا ہے۔ بلکہ ہم نے ایسے ذمی کی جان اور مال کے تحفظ کی ذمہ داری بھی لی ہے، [اسی لیے اس کو ذمی بھی کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ مترجم]
ان سب اشکالات کے جواب میں ہم کہتے ہیں:
جانی تحفظ کی صورت میں جیس طرح ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ یہ کچھ احکامات کی وجہ سے حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے، اسی طرح دیگر احکامات کو دیکھیں تو یہی جانی تحفظ حقوق اللہ سے بھی تعلق رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو قتل نہیں کر سکتا، یا کوئی ایسا اقدام نہیں کر سکتا جس کا نتیجہ موت ہو؛ لہذا جانی تحفظ کو دیگر کسی بھی ترجیح دینا دونوں حقوق کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے ہے۔ تو یہ مثال اس بات میں رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ جب صرف حق اللہ کی وجہ سے کسی مقصدِ شریعت کو دیگر پر مقدم کیا جائے۔
جبکہ مسافر اور مریض کو ملنے والی رخصت تحفظ جان کی تحفظِ دین پر ترجیح ملنے کی وجہ سے نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تحفظ جان کو تحفظِ دین کی ذیلی شاخوں پر ترجیح دی گئی ہے، اب ذیلی چیزیں اصولی چیزوں کی طرح یکساں نہیں ہو سکتیں۔
پھر یہ بھی ہے کہ جس قدر مشقت انسان کو حضر میں چار رکعات پڑھنے سے اٹھانی پڑتی ہے اتنی ہی مشقت سفر میں دو رکعت پڑھنے کے لیے اٹھانی پڑتی ہے، ایسے ہی مریض شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے جبکہ صحیح سلامت شخص کھڑے ہو کر پڑھتا ہے، تو دونوں صورتوں میں مقصد تو ایک ہی ہے۔
جبکہ روزے کے حوالے سے یہ ہے کہ روزے کلی طور پر معاف نہیں ہو جاتے بلکہ انہیں بعد میں رکھنے کی سہولت دی جاتی ہے، یعنی روزوں کی قضا دینا لازم ہے، اس طرح نماز پڑھتے ہوئے غرق آب ہونے والے کو بچانے کی فرضیت کا اشکال بھی دور ہو گیا ، اور مال کی حفاظت کی خاطر جمعہ اور باجماعت نماز ادا نہ کرنے کی سہولت کا اشکال بھی رفع ہو گیا۔ جبکہ کسی ذمی کا مسلمانوں میں مال و جان کے تحفظ کے ساتھ رہنا بھی مسلمانوں کی مصلحت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ یہ کافر مسلمانوں کے ماحول میں رہ کر شریعت کی خوبیوں کو پہچان لے، دینی امور کے متعلق آگہی حاصل کر لے۔ اس طرح اس غیر مسلم کو مسلمان بنانا آسان ہو گا، اور اس کی رہنمائی کرنا سہل ہو جائے گا۔ تو یہ دینی مصلحت ہے، کوئی اور مصلحت نہیں ہے۔" ختم شد
الإحكام في أصول الأحكام (4/ 275)
واللہ اعلم