میں امید سے ہوں اور حمل برقرار رکھنے کے لیے لیڈی ڈاکٹر نے روزانہ اندام نہانی میں شافے [کیپسول نما دوا] رکھنے تجویز کیے ہیں، تو میرا سوال طہارت سے متعلق ہے؛ کیونکہ یہ شافے اپنی اصلی صورت میں کچھ دیر کے بعد باہر نکل آتے ہیں اور بسا اوقات اگلا شافہ رکھنے کا وقت بھی آ جاتا ہے سابقہ دوائی کے اثرات شرمگاہ سے نکل رہے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے مجھے وسوسوں کا سامنا ہے اور ان کی وجہ سے میری نماز خراب ہو گئی ہے؛ کیونکہ میں پر سکون انداز میں نماز ادا نہیں کر سکتی، مجھے ہر وقت یہی خوف لاحق رہتا ہے کہ میرا وضو ٹوٹ جائے گا۔ شروع شروع میں تو کچھ بھی خارج نہیں ہوتا تھا، بسا اوقات تھوڑا بہت مادہ خارج ہوتا اور اس کے بعد تھم جاتا تھا، پھر بعد میں دوبارہ شروع ہو جاتا، اور پھر کبھی تو شافہ پورا ہی باہر آ جاتا ہے۔ کبھی تو تین چار گھنٹے تک نکلتا رہتا ہے۔ تو کیا اس صورت میں میرا حکم استحاضہ والا ہے؟ کہ میں ہر نماز کے لیے وضو کروں اور پھر وضو ٹوٹنے کی پروا نہ کروں؛ اگرچہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جیسے ہی میں شافہ رکھتی ہوں تو فوری سیال مادہ نکلنا شروع نہیں ہو جاتا ۔ لیکن کبھی وقفے وقفے سے نکلتا ہے۔ اس صورت میں طہارت کا کیا حکم ہے؟ سیال مادے میں پیلاہٹ یا مٹیالا پن بھی نہیں ہوتا۔
نسوانی شرمگاہ میں رکھے جانے والے شافے اور وضو کا حکم
سوال: 311711
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ کی بیان کردہ صورت حال میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس سے آپ وسوسوں کا شکار ہوں یا نماز اور وضو کے لیے پریشان ہوں؛ کیونکہ شریعت اسلامیہ -الحمد للہ-ساری کی ساری آسان اور نرمی والی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (مجھے آسان دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ: (2924) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
جمہور اہل علم کے ہاں رحم سے نکلنے والا سیال مادہ ناقض وضو ہے۔
جبکہ اس مادے کے پاک یا ناپاک ہونے کے اعتبار سے حکم میں اہل علم کے دو اقوال ہیں، ان میں سے راجح موقف کے مطابق ان کا حکم پاک ہونے کا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (44980) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوال میں مذکور شافوں اور ان سے رسنے والا سیال مادہ بھی وہی حکم رکھتا ہے، جو رحم سے نکلنے والے مادے کا ہوتا ہے، اس لیے ان پر بھی طہارت کا حکم لگایا جائے گا، تاہم اگر یہ مادہ خارج ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
سوم:
چونکہ ان شافوں سے رسنے والا مادہ کئی گھنٹے تک بھی نکلتا رہتا ہے، بلکہ اگلا شافہ رکھنے کے وقت تک بھی جاری رہتا ہے تو:
اگر آپ کو معلوم ہو کہ یہ مادہ کسی مخصوص وقت میں بہنا بند ہو جاتا ہے اور اس وقت میں وضو کر کے نماز ادا کرنا بھی ممکن ہے تو پھر اسی وقت میں آپ پر نماز پڑھنا ضروری اور واجب ہے، اور اگر ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ جمع بھی کیا جا سکتا ہو تو پھر آپ نمازیں جمع بھی کر سکتی ہیں، یعنی ظہر مع عصر اور مغرب مع عشا ادا کر لیں۔
لیکن اگر اس کے بند ہونے کا وقت معلوم نہ ہو ، سیال مادہ کسی بھی وقت بہنا شروع ہو جاتا ہو تو پھر آپ ہر نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد وضو کریں اور فرض نماز کے ساتھ جتنے مرضی نوافل ادا کرنا چاہیں تو کر لیں، اس صورت میں وضو کرنے کے بعد شرمگاہ سے کچھ بھی نکلے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا چاہے دوران نماز ہی کیوں نہ خارج ہو۔
پھر جب دوسری نماز کا وقت داخل ہو تو آپ دوبارہ وضو کر کے نماز ادا کریں گی، اسی طرح آئندہ دیگر نمازوں کے ساتھ کریں گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کے لیے درکار وقت تک اپنا وضو قائم نہ رکھ سکے تو پھر وہ وضو کر کے نماز پڑھ لے، دوران نماز خارج ہونے والا مادہ مضر نہیں ہو گا نہ ہی اس کا وضو ٹوٹے گا، اس پر تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے، اسے زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کر لے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21/221)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:
ایک عورت جو حمل کے آخری مہینے میں ہے اور اسے ہر وقت پیشاب رسنے کی شکایت ہے، تو اس نے آخری مہینے میں نمازیں نہیں پڑھیں، تو کیا یہ نمازیں ترک کرنے کے زمرے میں آئے گا؟ اور اب اس پر کیا لازم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"سوال میں مذکور یا اس جیسی دیگر خواتین کو نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، انہیں ہر حالت میں نماز ادا کرنی ہو گی، اس کے لیے مستحاضہ عورت کی طرح ہر نماز کا وقت داخل ہونے پر وضو کرے ، اور اپنی مخصوص جگہ پر روئی وغیرہ رکھ کر لنگوٹ کس لے اور وقت پر نماز ادا کرے، وضو کرنے کے بعد ایک نماز کے وقت کے دوران عورت نوافل بھی ادا کر سکتی ہے، اور ایسی خواتین کے لیے مستحاضہ عورت کی طرح ظہر کو عصر کے ساتھ اسی طرح مغرب کو عشا کی نماز کے ساتھ جمع کرنا بھی جائز ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ یعنی : اپنی استطاعت کے مطابق احکامات الہیہ پر عمل کرو۔[التغابن: 16]
اس لیے اس خاتون نے جتنی نمازیں ترک کی ہیں ان نمازوں کی قضا اس پر لازمی ہے، ساتھ میں اللہ تعالی سے اپنے فعل پر توبہ بھی مانگے، اپنے عمل پر ندامت کا اظہار کریں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ عزم کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے مؤمنوں سب کے سب اللہ تعالی کی جانب توبہ کرو، تا کہ تم فلاح پاؤ۔[النور: 31] " ختم شد
"مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (10/224)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
ایک ادمی سلس البول کی بیماری میں مبتلا ہے، اور اسے اتنی دیر تک قطرے آتے ہیں کہ اگر آخری قطرے کا انتظار کرے تو پوری جماعت ہی نکل جائے، تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ:
جب نمازی کو معلوم ہے کہ سلس البول ختم ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں جماعت کی فضیلت پانے کے لیے سلس البول ختم ہونے کا انتظار نہ کرنا درست نہیں ہے، اس پر یہی لازمی ہے کہ وہ سلس البول ختم ہونے کا انتظار کرے، پھر استنجا کرنے کے بعد وضو کرے، اور نماز پڑھے چاہے اس انتظار میں اس کی نماز با جماعت فوت ہی کیوں نہ ہو جائے۔
اس بنا پر ایسا شخص استنجا کر کے نماز کا وقت داخل ہوتے ہی وضو کر لیا کرے، تو اس طرح امید ہے کہ وہ اس کو نماز با جماعت بھی مل جائے گی۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کی آل و صحابہ کرام پر۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
عبد اللہ بن قعود، عبد الرزاق عفیفی، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/448)
اسی طرح شیخ محمد عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلس البول کی بیماری میں مبتلا شخص کی دو صورتیں ہیں:
پہلی حالت: اگر سلس البول مسلسل جاری رہے کہ بالکل بھی منقطع نہ ہو کہ جیسے کہ مثانے میں کچھ جمع ہوا تو فوری خارج ہو گیا، تو یہ شخص جیسے ہی نماز کا وقت داخل ہو تو وضو کرے اور اپنے عضو خاص پر کچھ باندھ لے، اور نماز ادا کرے، وضو کے بعد کچھ بھی نکلے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
دوسری حالت: اگر سلس البول میں پیشاب کے قطرے دس منٹ کے بعد یا 15 منٹ کے بعد رک جاتے ہیں، تو ایسا شخص قطرے رک جانے کا انتظار کرے گا یہاں تک کے قطرے نکلنا بند ہو جائیں، اس کے بعد وضو کر کے نماز ادا کرے گا، چاہے اس کی نماز با جماعت فوت ہی کیوں نہ ہو جائے" ختم شد
" أسئلة الباب المفتوح " (سوال نمبر: 17 ، مجلس نمبر: 67 )
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب