كيا بارش كى صورت ميں ظہر اور عصر اور مغرب و عشاء كى نمازيں جمع كرنا جائز ہيں ؟
بارش كى بنا پر نمازيں جمع كرنا
سوال: 31172
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
" موسلا دھار بارش اور بار بار نماز كے ليے مسجد جانے ميں مشقت كى بنا پر علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق مغرب اور عشاء كى نمازيں ايك اذان اور ہر ايك كے ليے اقامت كے ساتھ جمع تقديم كرنے كى رخصت ہے "
اور اسى طرح شديد كيچڑ كى صورت ميں بھى علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق ان دونوں نمازوں كو جمع تقديم كرنا جائز ہے، تا كہ حرج اور مشقت ختم ہو سكے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اس نے دين كے بارہ ميں تم پر كوئى تنگى نہيں ڈالى الحج ( 78 ).
اور دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا البقرۃ ( 286 ).
ابان بن عثمان رضى اللہ تعالى عنہ نے موسلا دھار بارش كى رات مغرب اور عشاء كى نمازيں جمع كى اور ان كے ساتھ كبار تابعين علماء كرام كى جماعت بھى تھى، اور ان كى كوئى مخالفت معلوم نہيں، تو اس طرح يہ اجماعت ہوا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى نے اسے " المغنى " ميں بيان كيا اور شديد بيمارى والے مريض كو ظہر اور عصر كى نماز ايك ہى وقت ميں جمع كرنے كى اجازت دى ہے، كہ وہ جس طرح اس كے ليے آسانى ہو دونوں نمازوں كے اوقات ميں سے كسى ايك ميں نمازيں جمع كر لے، اور اسى طرح مغرب اور عشاء كو بھى حرج اور مشقت ختم كرنے كے ليے جمع كر سكتا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 135 ).
اگر يہ كہا جائے كہ كيا ہم ـ بارش كى بنا پر ـ نماز مسجد ميں جمع كريں يا كہ گھر ميں ؟
تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
" مشروع تو يہ ہے كہ جب جمع كا جواز مثلا بارش وغيرہ پايا جائے تو اہل مسجد جماعت كا ثواب حاصل كرنے كے ليے اور لوگوں پر نرمى كے ليے نمازيں جمع كر ليں، احاديث ميں بھى يہى آيا ہے.
اور مذكورہ عذر كى بنا پر گھر ميں باجماعت نمازيں جمع كرنا جائز نہيں كيونكہ شريعت مطہرہ ميں يہ وارد نہيں اور جمع كرنے كے عذر كے عدم وجود كى وجہ سے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدئمۃ للبحوث العلميۃ ولافتاء ( 8 / 134 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب