ونيسہ كيا ہے اور اس كا حكم اور ثواب كيسا ہے ؟
ونيسہ ( دفن كے بعد قبر پر پہلى رات گزارنا ) كا حكم
سوال: 31200
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ونيسہ كے متعلق دريافت كرنے سے ہميں معلوم ہوا كہ جب ميت كو دفن كيا جاتا ہے تو ميت كے انس كے ليے قبر كے پاس پہلى رات بسر كرنے كو ونيسہ كہا جاتا ہے، يہ عمل بدعت اور مذموم ہے جس كى دين اسلام ميں كوئى اصل نہيں نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كيا اور نہ ہى صحابہ كرام ميں سے كسى نے.
اور پھر اگر يہ كام اچھا اور بھلائى ہوتى تو وہ ہم سے اس كو سرانجام دينے ميں سبقت لے جاتے، جب ان سے اس كے متعلق كچھ وارد نہيں حالانكہ بہت سارے صحابہ كى وفات ان كى موجودگى ميں ہوئى تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ اس ميں كوئى خير و بھلائى نہيں.
اور پھر عبادات ميں اصل توقيف ہے يعنى جس طرح عبادات مشروع ہيں وہ بغير كمى و زيادتى كے ادا كى جائينگى، اس ليے اللہ كى عبادت اسى طرح ہو گى جو اس نے كتاب اللہ ميں يا پھر اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان سے سنت نبويہ ميں بيان فرمائى ہے.
بدعات كے افعال سرانجام دينے ميں كوئى نيكى و ثواب نہيں، بلكہ يہ عمل تو مردود ہے عمل كرنے والے كے منہ پر دے مارا جاتا ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام نكالا تو وہ مردود ہے “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
اور يہ گمراہى ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر خطبہ ميں ارشاد فرمايا كرتے تھے:
” اور سب سے برے امور اس كى بدعات ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے “
صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 ).
اور نسائى كى روايت ميں يہ الفاظ زائد ہيں:
” اور ہر گمراہى آگ ميں ہے “
سنن نسائى حديث نمبر ( 1578 ).
اور اس بدعتى شخص كے متعلق خدشہ ہے كہ اسے فتنہ و عذاب نہ آ لے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
جو لوگ حكم رسول كى مخالفت كرتے ہيں انہيں ڈرتے رہنا چاہيے كہ كہيں ان پر كوئى زبردست آفت نہ آ پڑے يا انہيں دردناك عذاب نہ پہنچ جائے النور ( 63 ).
ابن كثير رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:
ان لوگوں كو اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى مخالفت سے ڈرنا چاہيے، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى راہ ان كا منہج اور طريقہ اور سنت اور شريعت ہے، اس ليے اقوال و اعمال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقوال و اعمال سے تولے جائينگے جو اس كے موافق ہونگے وہ قبول ہونگے اور جو مخالف ہونگے وہ صاحب عمل اور قول پر رد كر ديے جائينگے چاہے وہ كوئى بھى ہو.
جيسا كہ صحيح بخارى و مسلم وغيرہ ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے “
اس ليے جو رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى شريعت كى باطن اور ظاہر ميں مخالت كرتا ہے اسے ڈرتے رہنا چاہيے كہ كہيں اسے كوئى زبردست آفت نہ آ لے، يعنى ان كے دلوں ميں كفر يا نفاق يا بدعت نہ پڑ جائے، ( يا پھر انہيں المناك قسم كا عذاب نہ آ پڑے ) يعنى دنيا ميں انہيں قتل كر ديا جائے يا ان پر حد لاگو ہو يا قيد كر ديا جائے ” انتہى.
اور پھر ميت كو اس كى ضرورت نہيں كہ اسے كوئى زندہ شخص قبر ميں مانوس كرے ميت تو اپنے حساب و كتاب ميں مشغول ہے، اور اسے اس كے اعمال كا بدلہ ملنا ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ كى ايك لمبى حديث ميں بيان فرمايا ہے:
” جب مومن بندہ دنيا سے جاتا اور آخرت ميں آتا ہے تو اس كے پاس آسمان سے سفيد چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہيں، گويا ان كے چہرے سورج ہوں، ان كے پاس جنت كے كفن اور جنت كى حنوط اور خوشبو ہوتى ہے، اور وہ اس كے پاس بيٹھ جاتے ہيں جہاں تك اس كى نظر جائے فرشتے ہوتے ہيں، پھر ملك الموت عليہ السلام آ كر اس كے سرہانے بيٹھ كر كہتا ہے اے مطمئن جان اپنے رب كى مغفرت و بخشش كى طرف نكل اور اس كى خوشنودى كى طرف چل.
راوى بيان كرتے ہيں نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تو وہ روح اور جان اس طرح بہہ كر نكلتى ہے جس طرح مشكيزے سے پانى كا قطرہ بہتا ہے، تو وہ فرشتہ فورا پكڑ كر اسے ايك لمحہ بھى اپنے ہاتھ ميں نہ ركھتا بلكہ وہ فرشتے اسے ہاتھوں ہاتھ لے كر فورا اس كفن ميں ركھتے ہيں اور وہ حنوط و خوشبو لگا ديتے ہيں، تو اس سے زمين پر پائى جانے والى بہت اچھى اور نفيس قسم كى كستورى جيسى خوشبو نكلتى ہے.
آپ نے فرمايا: تو وہ اسے لے كر اوپر چڑھ جاتے ہيں اور جس فرشتے كے پاس سے بھى گزرتے ہيں وہ پوچھتا ہے يہ كسى كى اچھى روح ہے تو وہ جواب ميں وہ نام بتاتے ہيں جس اچھے نام كے ساتھ اسے دنيا ميں پكارا جاتا تھا حتى كہ آسمان دنيا كے قريب پہنچتے ہيں اور دروازہ كھولنے كا كہتے ہيں تو دروازہ كھول ديا جاتا ہے، ہو ہر آسمان كے مقرب فرشتے اس كے ساتھ دوسرے آسمان تك جاتے ہيں حتى كہ ساتواں آسمان آ جاتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے:
ميرے بندے كى كتاب عليين ميں لكھ دو اور اسے زمين كى طرف لوٹا دو كيونكہ ميں نے انہيں اس زمين سے ہى پيدا كيا ہے اور اسى ميں لوٹاتا ہوں اور پھر دوبارہ اسى ميں سے انہيں پيدا كرونگا.
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو اس كى روح اس كے جسم ميں لوٹا دى جاتى ہے اور دو فرشتے اس كے پاس آ كر اسے بٹھاتے ہيں اور اسے كہتے ہيں: تيرا رب كون ہے ؟ تو وہ جواب ميں كہتا ہے ميرا پروردگا اور رب اللہ ہے.
وہ دونوں كہتے ہيں تيرا دين كيا ہے ؟ وہ جواب ديتا ہے ميرا دين اسلام ہے، وہ دونوں كہتے ہيں: تم اس شخص كے متعلق كيا كہتے ہو جو تمہارے اندر مبعوث كيا گيا ؟
وہ جواب ديتا ہے وہ اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہيں وہ كہتے ہيں تجھےكيسے علم ہوا ؟ تو وہ جواب ديتا ہے ميں نے اللہ كى كتاب كو پڑھا اور اس پر ايمان لايا اور اس كى تصديق كى تو آسمان سے منادى ہوتى ہے ميرے بندے نے سچ بولا اس كے ليے جنت كا بستر بچھا دو اور اسے جنت كا لباس پہنا دو اور اس كے ليے جنت كى طرف دروازہ كھول دو.
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو جنت كى ہوا اور خوشبو آتى ہے اور اس كى قبر حد نظر تك وسيع كر دى جاتى ہے.
آپ نے فرمايا: اور اس كے پاس ايك بہت خوبصورت چہرے اور اچھى خوشبو اور بہتر لباس والا شخص آ كر كہتا ہے خوش ہو جاؤ جو تجھے سرور ميں ڈالے يہ وہ دن ہے جس كا تيرے ساتھ وعدہ كيا گيا تھا، تو وہ دريافت كرتا ہے تم كون ہو؟ تيرا چہرہ ہى خير و بھلائى لانے والا معلوم ہوتا ہے تو وہ جواب ديتا ہے ميں تيرا نيك و صالح عمل ہوں، تو بندہ كہتا ہے اے اللہ قيامت قائم كر دے تا كہ ميں اپنے اہل و عيال اور مال و دولت كى طرف جاؤں.
آپ نے فرمايا:
جب كافر دنيا ميں جاتا اور آخرت ميں داخل ہوتا ہے تو آسمان سے سياہ چہرے والے فرشتے نازل ہوتے ہيں جن كے پاس ٹاٹ كا كھردرا كفن ہوتا ہے، وہ حد نگاہ تك اس كے پاس بيٹھ جاتے ہيں اور پھر ملك الموت آ كر اس كے سرہانے بيٹھ كر كہتا ہے اے خبيث جان اللہ كى ناراضگى اور غضب كى طرف نكل.
آپ نے فرمايا:
تو وہ روح اس كے جسم ميں پھيل جاتى ہے، تو وہ اسے اس طرح كھينچتا ہے جس طرح ٹيڑھى سلاخ سے بيگھى ہوئى اون كھينچى جاتى ہے، وہ اسے پكڑ كر ايك لمحہ بھى اپنے ہاتھ ميں نہيں ركھتا فورا اسے اس ٹاٹ كے كھردرے كفن ميں ركھ ليتا ہے اور اس سے زمين پر موجود سب سے برے مردار كى تعفن جيسى بو خارج ہوتى ہے، وہ اسے لے كر آسمان كى طرف جاتے ہيں اور جس فرشتے كے پاس سے بھى گزرتے ہيں تو وہ كہتے يہ كسى كى خبيث اور گندى روح ہے، تو وہ كہتے ہيں فلان شخص سب سے برا نام جو اسے دنيا ميں ديا جاتا تھا، حتى كہ وہ آسمان دنيا تك جاتے ہيں اور دروازہ كھولنے كا كہتے ہيں تو اس كے ليے دروازہ نہيں كھولا جاتا.
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
ان كے ليے آسمان كے ليے دروازے نہيں كھولے جائينگے اور نہ ہى وہ جنت ميں داخل ہونگے حتى كہ اونٹ سوئى كے نكے ميں داخل ہو جائے .
اللہ سبحانہ و تعالى كہتے ہيں: اس كى كتاب نچلى زمين سجين ميں لكھ دو، تو اس كى روح كو پيھنك ديا جاتا ہے پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ آيت تلاوت فرمائى:
اور جو كوئى اللہ كے ساتھ شرك كرتا ہے گويا وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچك لے جائيں يا پھر اسے ہوا كسى دور جگہ پھينك دے .
تو اس كى روح اس كے جسم ميں لوٹائى جاتى ہے اور دو فرشتے آ كر اسے بٹھاتے ہيں اور دريافت كرتے ہيں: تيرا رب كون ہے ؟ وہ جواب ديتا ہے ہائے ميں تو جانتا ہى نہيں، وہ دونوں فرشتے اسے كہتے ہيں: تيرا دين كيا ہے ؟ وہ جواب ديتا ہے ہائے مجھے تو علم نہيں، وہ فرشتے اسے كہتے ہيں: وہ شخص جو تمہارے اندر مبعوث كيا گيا وہ كون ہے ؟ تو وہ جواب ديتا ہے ہائے مجھے تو معلوم ہى نہيں.
آسمان سے منادى كرنے والے كى آواز آتى ہے اس نے جھوٹ بولا ہے، اس كے ليے آگ كا بستر بچھا دو، اور اس كے ليے آگ كى جانب دروازہ كھول دو تو وہاں سے اس كى گرمى اور لو آتى ہے اور اس كى قبر اس پر اتنى تنگ ہو جاتى ہے كہ اس كى پسلياں آپ ميں مل جاتى ہيں.
اور اس كے پاس برى ترين شكل اور تعفن شدہ لباس ميں ايك شخص آ كر كہتا ہے: اس خبر كو سنو جو تمہيں برى لگتى ہے يہ وہ دن ہے جس كا تجھ سے وعدہ كيا گيا تھا، تو وہ كہتا تم كون ہو، تيرا چہرہ ہى ايسا ہے جس سےبرائى ٹپك رہى ہے وہ جواب ديتا ہے ميں تيرے برے اعمال ہوں، تو وہ كہتا ہے اے رب قيامت قائم نہ كرنا “
مسند احمد حديث نمبر ( 18557 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 1676 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب