ایک شخص نے اپنا گھر اپنے کسی بھی محتاج بیٹے یا بیٹی کے لیے وقف کر دیا تھا کہ جس کو ضرورت ہو وہ اس میں رہے، لیکن والد کی وفات کے کئی سال بعد اب مکان پرانا ہو چکا ہے اور گرنے کے قریب ہے، تو اب اس کی اولاد اس مکان کا کیا کریں؟ اسے فروخت کر دیں یا کچھ اور کریں؟
اپنا گھر اپنے غریب بچوں کے لیے وقف کیا اب مکان بوسیدہ ہو چکا ہے اور گرنے والا ہے۔
سوال: 315618
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
صرف اپنی اولاد اور نسل پر کسی بھی چیز کو وقف کرنا صحیح ہے، نیز اس طرح وقف کرنے والے کی شرائط کو بھی مد نظر رکھا جائے گا، جیسےکہ اس نے شرط یہ رکھی تھی کہ یہ صرف محتاج لوگوں کے لیے ہے، اس لیے صرف محتاج لوگ ہی اس سے استفادہ کریں گے۔
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں کہتے ہیں کہ:
"زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کو وقف کیا اور شرائط طے کرتے ہوئے اپنی مطلقہ بیٹی سے کہا: وہ اس مکان میں اس طرح رہے کہ اس کو اس مکان میں نقصان نہ پہنچے اور نہ ہی وہ مکان کو نقصان پہنچائے، لیکن جب اس کی شادی ہو جائے تو اس کو اس مکان میں رہنے کا حق نہیں ہو گا۔" ختم شد
زاد المستقنع میں ہے کہ:
"اگر وقف کرنے والا کوئی چیز بالترتیب اپنی اولاد یا کسی کی اولاد کے لیے وقف کرتا ہے ، پھر مساکین کے لیے وقف کرتا ہے تو وہ اس کے اپنے لڑکے اور لڑکیوں پر برابری کی بنیاد پر وقف ہو گا، اس کے بعد صرف پوتوں پر وقف ہو گا، پوتیوں پر نہیں ہو گا، اس کا حکم ایسے ہی ہے کہ وہ وقف کرتے ہوئے کہے کہ یہ میرے پوتوں پر اور ان کی آئندہ حقیقی نسل پر وقف ہے۔"
دوم:
جب کوئی وقف شدہ چیز خراب ہو جائے اور اس کی مرمت و بحالی کے کام کی ضرورت ہو تو اسی کا کچھ حصہ فروخت کر کے اس کی مرمت اور بحالی پر لگایا جا ہے، اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر سارے کا سارا ہی فروخت کر کے اس کی قیمت سے ایک اور مکان خرید لیا جائے گا جو کہ وقف ہی ہوگا۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" خلاصہ یہ ہے کہ: جب کوئی وقف چیز خراب ہو جائے، اس سے حاصل ہونے والا فائدہ معطل ہو جائے مثلاً: مکان گر جائے، یا زمین ویران ہو جائے اور قابل کاشت نہ رہے، نہ ہی اسے دوبارہ آباد کرنا ممکن ہو، یا کسی مسجد کے آس پاس رہنے والے تمام لوگ کسی اور جگہ منتقل ہو جائیں اور مسجد غیر آباد ہو جائے کہ وہاں کوئی نماز ادا کرنے کے لیے نہ آئے، یا نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ مسجد کی توسیع ممکن نہیں ہے، یا اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ اس کی مرمت اور بحالی کا کام اسی وقت ممکن ہے کہ مسجد کا کچھ حصہ فروخت کیا جائے اور پھر اس کی تعمیر و بحالی پر لگایا جائے، تو ایسی صورت میں اس وقف شدہ جگہ کو فروخت اس لیے کرنا جائز ہو گا کہ بقیہ حصے کی مرمت اور بحالی کا کام ہو سکے۔
اور اگر اس وقف شدہ چیز کے کسی بھی حصے سے استفادہ ممکن نہ ہو تو پوری وقف شدہ چیز کو فروخت کر دیا جائے گا۔
ابو داود کی ایک روایت کے مطابق امام احمد کہتے ہیں کہ: اگر مسجد میں دو لکڑیاں لگی ہوئی ہوں اور دونوں قیمتی ہوں تو انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد پر لگانا جائز ہے۔ اور صالح کی روایت کے مطابق یہ ہے کہ: اگر مسجد کا موقع محل ایسی جگہ پر ہے کہ وہاں بہت زیادہ چور پائے جاتے ہیں ، یا وہ جگہ بہت گندگی والی ہے تو مسجد کو وہاں سے منتقل کر دیا جائے گا۔
قاضی رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اگر چوروں کی وجہ سے یا گندگی کی وجہ سے وہاں پر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو تو مسجد کو منتقل کر دیا جائے گا۔" ختم شد
المغنی: (5/368)
ڈاکٹر عبد العزیز بن سعد دغیثر سے پوچھا گیا کہ:
"میں ایک وقف شدہ پراپرٹی کا سر پرست ہوں، اس کی بحالی اور مرمت کی ضرورت ہے، اس مکان سے کرایہ دار بھی اٹھ کر چلے گئے ہیں، تو اب اس وقف کی بحالی اور مرمت کے لیے شرعی طریقہ کار کیا ہوگا؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"واجب تو یہی ہے کہ وقف شدہ پراپرٹی کی آمدن سے رقم لے کر اس کی بحالی اور مرمت کا کام کروایا جائے، اور اگر آمدن اتنی نہیں ہے کہ مرمت کا کام مکمل ہو تو وقف پراپرٹی کا سر پرست اس کی مرمت کے لیے قرض لے سکتا ہے، یا خود مرمت کروا دے اور پھر اس کی آمدن سے کٹوتی کر لے، یہ سب اس لیے ہے کہ وقف چیز دوبارہ بحال ہو جائے اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہاں عدالتی اجازت نامہ ہونا ضروری ہے اور اسی طرح وقف شدہ چیز کو کرائے پر چڑھا کر کرائے کے ذریعے آمدن نہ ہونا شرط ہے، اس صورت میں حنبلی فقہائے کرام عدالتی اجازت نامے کی شرط نہیں لگاتے، جیسے کہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وقف چیز کا نگران وقف چیز کی بحالی اورمرمت کے لیے قرض لے سکتا ہے، یہاں سرکاری اجازت نامے کی بھی ضرورت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ وقف شدہ املاک کے لیے کوئی چیز نقد یا ادھار کیفیت کا تعین کیے بغیر خریدتا ہے۔"
اگر وقف چیز کی آمدن مرمت اور بحالی کے لیے ناکافی ہے نہ ہی کوئی قرض دینے کے لیے تیار ہے، تو نگرانِ وقف ، وقف املاک میں سے کچھ فروخت کر کے باقی ماندہ وقف کی مرمت کروائے؛ کیونکہ حنبلی فقہائے کرام وقف شدہ املاک کا کچھ حصہ فروخت کر کے بقیہ کی بحالی پر لگانا جائز قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے لیے یہ شرط ہے کہ جس کو فروخت کرنا ہے وہ بھی اور جس کو بحال کرنا ہے وہ بھی دونوں ہی ایک شخص نے وقف کی ہوں، مثلاً: کوئی شخص دو گھر وقف کرتا ہے ، تو اگر دونوں ہی کی حالت پتلی ہو جائے تو ان میں سے ایک کو فروخت کر کے دوسرے کو بحال کر دیا جائے گا، کسی اور شخص کے وقف کردہ مکان کو فروخت کر کے بحال نہیں کیا جائے گا" ختم شد
سوم:
اگر کوئی وقف کنندہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے بعد وقف شدہ چیز کا مصرف بیان نہیں کرتا، نہ ہی یہ کہتا ہے کہ: "یہ میری اولاد کی اولاد کے لیے ہے" یا "میری نسل کے لیے ہے" یا "ان کے بعد مساکین کے لیے ہے" تو ایسی صورت میں وقف کنندہ کی اولاد فوت ہو جائے اور ان میں سے کوئی اس وقف املاک کا محتاج بھی نہ ہو تو پھر یہ مبہم وقف پراپرٹی ہو گی ، ایسی صورت میں اس کا حکم یہ ہے کہ یہ املاک وقف کنندہ کے وارثوں کی ہو جائے گی، اور انہیں ان کی وراثت کے برابر مقدار میں حصہ ملے گا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب وصیت وقف میں کوئی اور وضاحت نہ ہو۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ : "الموسوعة الفقهية" (44/ 147) کا مطالعہ فرمائیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب