ایک نئی سہولت متعارف کروائی گئی ہے کہ جس میں قرضے تلے دبے افراد کو لوگوں سے عطیات جمع کرنے کی سہولت دی جاتی ہے، تو کیا اس سہولت کے تحت اپنی دولت کی زکاۃ ان کی مدد کے لئے جمع کروائی جا سکتی ہے؟
قرضے کی وجہ سے قید افراد کو زکاۃ دینے کا حکم
سوال: 316052
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تنگ دست مقروض افراد چاہے قیدی ہوں یا کوئی اور انہیں زکاۃ دینا جائز ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
ترجمہ: صدقات تو دراصل فقیروں مسکینوں اور ان کارندوں کے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب غلام آزاد کرانے قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے [التوبۃ: 60]
آیت میں مذکور: "وَالْغَارِمِينَ " سے مراد ایسے مقروض لوگ ہیں جن کے پاس اپنا قرضہ چکانے کے لئے کچھ نہیں ہے، تو ایسے مقروض شخص کو اتنی مقدار میں زکاۃ دی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا قرضہ چکا دے، چاہے اس نے قرضے کی یہ رقم کسی حرام کام کے لئے لی تھی، لیکن ایسی صورت میں شرط یہ ہے کہ اس نے اس حرام کام سے توبہ کر لی ہو۔
چنانچہ "شرح منتهى الإرادات" (1/ 457) میں ہے کہ:
"یا [زکاۃ کا مستحق وہ شخص بن سکتا ہے] جس نے اپنے لیے کسی جائز کام کے لئے قرض لیا یا اپنے لیے ہی کسی حرام کام کے لئے قرض لیا اور حرام کام سے توبہ کر لی ، اور پھر اس کا قرض چکانے سے ہاتھ تنگ ہو گیا، اس کی دلیل سورت توبہ میں "وَالْغَارِمِينَ " کا لفظ ہے۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
"کیا زکاۃ کا کچھ مال رفاہی اداروں میں جمع کروانا جائز ہے؟مثلاً: البر رفاہی ادارہ، یا قیدیوں کی بازیابی کیلیے کام کرنے والے رفاہی ادارے وغیرہ؟
جواب: عطیات کے لیے مختص چندہ بکس کے بارے میں اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان کی انتظامیہ وصول ہونے والی زکاۃ کو زکاۃ کے تمام یا چند شرعی مصارف میں ہی خرچ کرتی ہے، مثلاً: فقرا اور مساکین وغیرہ میں، نیز انتظامیہ کے افراد دیندار، امانتدار ، نیک اور قابل اعتماد بھی ہیں کہ انہیں اپنی زکاۃ کی رقم دے کر قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے، وہ اس رقم کو صحیح جگہ بھی لگاتے ہیں، تو پھر انہیں زکاۃ کی رقم زکاۃ کے شرعی مصارف میں خرچ کرنے کیلیے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
جبکہ حق خاص کی وجہ سے قید ہو جانے والے افراد کے لیے تو اللہ تعالی نے خصوصی طور پر فرمایا ہے کہ:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ
ترجمہ: صدقات تو دراصل فقیروں مسکینوں اور ان کارندوں کے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب غلام آزاد کرانے قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ [التوبۃ: 60]
تو اس آیت میں زکاۃ کے مستحقین کے ضمن میں "وَالْغَارِمِينَ " یعنی مقروض لوگوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔
اور "وَالْغَارِمِينَ "دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ قسم ہے جو دو جھگڑنے والے افراد کے درمیان صلح کروائے، مالی معاملات کی وجہ سے دو گروپوں کے درمیان بھڑکنے والے فتنے کو بجھائے اور صلح کروانے والا شخص آگے بڑھ کر اپنی ذاتی جیب سے ان میں مالی تصفیہ کر دے اور نیت یہ رکھے کہ میں یہ رقم زکاۃ کی مد سے کہیں سے وصول کر لوں گا، تو ایسے لوگوں کو زکاۃ کی مد میں "وَالْغَارِمِينَ " کے تحت رقم دی جائے گی چاہے وہ شخص ذاتی حیثیت میں مالدار ہی کیوں نہ ۔
دوسری قسم: ایسا مقروض شخص جو اپنی جائز ضروریات پوری کرنے کے لئے قرضہ لے، مثلاً: ایک شخص اپنے اور اپنے زیر کفالت بچوں کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لئے قرض لے، یا پھر کسی پر ظلم و زیادتی کے بغیر ہی مالی جرمانہ اس پر عائد ہو جائے[مثلاً: ٹریفک حادثے کی صورت میں مالی جرمانہ لاگو ہو جائے] تو ایسے شخص کو اتنی مقدار میں زکاۃ دی جا سکتی ہے جس سے اس کے ذمہ موجود رقم یا جرمانہ ادا ہو جائے۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر۔
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
عبد اللہ بن منیع، رکن
عبد اللہ بن غدیان ، رکن
عبد الرزاق عفیفی، نائب صد
ابراہیم بن محمد آل الشیخ، صدر" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب