آپ نے ایک سوال کے جواب میں یہ لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جسمانی اور روحانی تمام بیماریوں کا علاج ہے، اس بات کی کیا دلیل ہے؟ نیز گنجے پن کے علاج کے لیے قرآن کریم سے کیسے علاج کیا جائے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
اس بات کی دلیل کہ قرآن کریم جسمانی اور روحانی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔
سوال: 318864
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قرآن کریم شفا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا ترجمہ: اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے خسارے میں ہی اضافہ کرتا ہے۔ [بنی اسرائیل: 82]
تو قرآن کریم جسمانی اور روحانی ہر قسم کی بیماری کے لیے شفا ہے، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آپ اور اپنے گھرانے کے مریض پر سورت الفلق اور سورت الناس پڑھ کر دم کیا کرتے تھے، اگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ عمل کبھی نہ کرتے۔
چنانچہ صحیح مسلم: (2192) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت بیمار ہوتے تو اپنے آپ پر معوذات پڑھتے اور تھتکارتے تھے، پھر جب آپ کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر معوذات پڑھ کر دم کرتی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا ہاتھ آپ کے جسم پر پھیرتی تھی کہ آپ کا ہاتھ بابرکت تھا۔
اسی طرح صحیح مسلم ہی میں: (2192) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھرانے میں کوئی بیمار ہوتا تو معوذات پڑھ کر اس پر تھتکارتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مرض الوفاۃ میں تھے تو میں آپ پر تھتکارتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہاتھ میرے ہاتھ سے زیادہ بابرکت تھا۔
اسی طرح ابن حبان: (6098) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس آئے تو وہاں ایک عورت سیدہ عائشہ کا علاج کر رہی تھی، یا آپ رضی اللہ عنہا پر دم کر رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان کا علاج اللہ کی کتاب کے ذریعے کریں)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ترجمہ: اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے ۔ [بنی اسرائیل: 82] صحیح موقف یہ ہے یہاں حرف جر "من" بیانِ جنس کے لیے ہے تبعیض کے لیے نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا ایک اور جگہ یہ بھی فرمان ہے کہ: يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے نصیحت آ گئی ہے جو کہ سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا بھی ہے۔[یونس: 57]
ا س لیے قرآن کریم پورے کا پورا قلبی ، بدنی ، دنیاوی اور اخروی سب بیماریوں کا مکمل علاج ہے۔
البتہ یہ ہے کہ ہر کوئی اس قابل نہیں ہوتا اور ہر کسی کو قرآن مجید کے ذریعے علاج میں کامیابی نہیں ملتی۔
تاہم اگر کوئی مریض اچھے طریقے سے علاج کرے، اور بیماری کے علاج میں پختہ یقین، کامل جزم، صدق دل اور مکمل ایمان کے ساتھ قرآن کریم کو ذریعہ بنائے، اور دیگر تمام شرائط بھی پوری ہوں تو کسی صورت میں بھی کوئی بھی بیماری قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
کوئی بیماری کیسے قرآن کریم کا مقابلہ کر سکتی ہے! کہ قرآن تو زمین و آسمان کے رب کا کلام ہے، اگر اس کلام کو پہاڑوں پر نازل کر دیا جاتا تو قرآن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتا، اور اگر زمین پر نازل ہوتا تو اسے ٹکرے ٹکڑے کر دیتا۔
اس لیے مرض کوئی قلبی ہو یا جسمانی، قرآن کریم میں اس کے علاج اور علاج کے اسباب کے متعلق رہنمائی موجو دہے، صرف رہنمائی نہیں بلکہ بچاؤ کے طریقے بھی موجود ہیں، تاہم یہ اسی کو معلوم ہوتے ہیں جسے قرآن کریم کا فہم دیا گیا ہو۔" ختم شد
زاد المعاد (4/ 322)
ابن قیم رحمہ اللہ زاد المعاد (4/ 22) میں کہتے ہیں کہ :
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیماری کا علاج تین طریقوں سے کیا کرتے تھے:
پہلا طریقہ: قدرتی ادویات سے علاج
دوسرا طریقہ: روحانی ادویہ کے ذریعے علاج
تیسرا طریقہ: دونوں طریقہ ہائے علاج کو استعمال کرتے ہوئے علاج " ختم شد
آپ رحمہ اللہ (4/ 162) پر مزید کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ڈسے ہوئے شخص کے علاج کے متعلق طریقہ کار:
صحیح بخاری اور مسلم میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چند صحابہ ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے راستے میں انہوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤ کیا اور چاہا کہ قبیلے والے ان کی مہمانی کریں لیکن انہوں نے مسافروں کی ضیافت سے انکار کر دیا، پھر اس قبیلے کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ، انہوں نے اس کے علاج کی ہر طرح کی کوشش کر ڈالی لیکن کسی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا ۔ آخر انہی میں سے کسی نے کہا کہ یہ لوگ جنہوں نے تمہارے قبیلے کے پاس پڑاؤ کر رکھا ہے ان کے پاس بھی چلو ، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی دم ہو ۔ چنانچہ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہا: لوگو ! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ہم نے ہر طرح کی بہت کوشش اس کے لیے کر ڈالی لیکن کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیا تم لوگوں میں سے کس کے پاس اس کے لیے دم ہے ؟ صحابہ میں سے ایک صاحب ( ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ ہاں ، اللہ کی قسم مجھے دم کرنا آتا ہے ، لیکن ہم نے تم سے کہا تھا کہ ہماری مہمانی کرو ( ہم مسافر ہیں ) تو تم نے انکار کر دیا تھا اس لیے میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم ہمارے لیے اس کا انعام مقرر نہ کر دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے بکریوں کے ریوڑ پر بات طے کر لی۔ اب یہ صحابی روانہ ہوئے ، آپ مریض پر تھوکتے جاتے اور الحمدللہ رب العالمین پڑھتے جاتے اس کی برکت سے وہ ایسا ہو گیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو ۔ راوی کہتے ہیں کہ: پھر وعدہ کے مطابق قبیلے والوں نے ان صحابی کا انعام ادا کر دیا، اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ بکریاں تقسیم کر لو لیکن جس نے دم کیا تھا انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں ، پہلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور پوری صورت حال آپ کے سامنے بیان کریں گے پھر دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ۔ چنانچہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس کا ذکر کیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ : (تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس سے دم کیا جا سکتا ہے ؟) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( تم نے اچھا کیا ۔ بکریوں کو تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ رکھو)"
اسی طرح سنن ابن ماجہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قرآن کریم بہترین دوا ہے)
اور یہ بات سب کے لیے عیاں ہے کہ کچھ کلام ایسے ہیں جن کی واقعی تاثیر ہوتی ہے اور یہ مجرب بات ہے، اگر عام کلام میں تاثیر ہو سکتی ہے تو رب العالمین کے کلام میں کیوں نہیں ہو سکتی جو کہ مطلق طور پر ہر کلام سے افضل ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اللہ تعالی سب مخلوقات سے افضل ہے، قرآن کریم مکمل شفا بھی ہے ، اور مفید حرزِ جان بھی۔ قرآن کریم نورِ ہادی بھی ہے اور سب کے لیے رحمت بھی، اگر قرآن کریم کو پہاڑ پر اتارا جاتا تو اس کی عظمت اور جلالت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔
فرمانِ باری تعالی ہے: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ترجمہ: اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے ۔ [بنی اسرائیل: 82] صحیح موقف کے مطابق یہاں پر "من" بیانِ جنس کے لیے ہے، تبعیض کے لیے نہیں ہے، بالکل ایسے ہی جیسے اللہ تعالی اس فرمان میں ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ترجمہ: اور اللہ تعالی کا ان سب میں سے ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے ساتھ مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے۔[الفتح: 29] تو سبھی صحابہ کرام ایمان اور عمل صالح کرنے والے ہیں۔ پھر آپ کا سورت الفاتحہ کے بارے میں کیا خیال ہے کہ اس جیسی صورت قرآن کریم میں نازل نہیں ہوئی، بلکہ تورات، انجیل اور زبور میں بھی ایسی سورت نازل نہیں ہوئی، سورت فاتحہ میں اللہ تعالی کی تمام کتابوں کی ہدایات موجود ہیں، اس سورت میں اللہ تعالی کے بنیادی اور جامع ترین اسمائے گرامی یعنی: اللہ، رب اور رحمن کا ذکر ہوا ہے، اس میں آخرت کا ثبوت ہے، توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا اثبات ہے، اس سورت میں اللہ تعالی کے سامنے حاجت روائی کا مطالبہ ہے، ہدایت کی درخواست ہے اور صرف اللہ تعالی سے یہ سب چیزیں مانگی گئی ہیں۔"
آپ رحمہ اللہ آگے چل کر کہتے ہیں:
"ایک بار مکہ میں میرے ساتھ ایسا ہوا کہ میں بیمار ہو گیا، علاج کے لیے نہ تو مجھے معالج میسر ہوا نہ ہی دوا ، تو میں سورت فاتحہ کے ساتھ اپنا علاج کرتا رہا، اس کے لیے گھونٹ بھر زمزم کا پانی لے کر اس پر کئی مرتبہ سورت فاتحہ پڑھتا اور پھر اسے پی لیتا، اس سے مجھے مکمل شفا یابی حاصل ہو گئی، پھر بعد میں بہت سی بیماریوں میں یہی کرتا تھا اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوتا تھا۔" ختم شد
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اللہ تعالی نے جتنی بھی بیماریاں نازل کی ہیں تو ان کے لیے دوا بھی نازل فرمائی ہے، یہ الگ بات ہے اس کا علم کسی کسی کو ہوتا ہے، اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کتاب و سنت کی صورت میں نازل کیے ہیں ان میں لوگوں کی روحانی اور جسمانی تمام بیماریوں کا علاج ہے، لوگوں کو ان سے فائدہ بھی بہت ہوتا ہے، اور ان کے ذریعے ناقابل شمار افراد مستفید ہوئے ہیں۔" ختم شد
فتاوی شیخ ابن باز: (3/ 453)
دوم:
قرآن کریم کے ذریعے جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے جو مجرب طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: قرآن کریم کی کچھ آیات کاغذ پر لکھیں اور پھر اسے پانی میں گھول کر شفا کے لیے پی لیں۔
چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین کی ایک جماعت نے کچھ قرآنی آیات لکھ کر اسے پانی میں گھول کر پینے کی رخصت دی ہے، اور اسے قرآن کریم کے ذریعے حصولِ شفا کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
دوران زچگی ولادت میں آسانی کے لیے صاف برتن میں یہ آیات لکھی جائیں: إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ * وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ * وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ * وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ * وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ جب آسمان پھٹ جائے گا، اور وہ اپنے رب کی جانب کان لگائے ہوئے ہے اور یہی اس کے لائق ہے۔ اور جب زمین کھینچ کر پھیلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر چیزوں کو نکال باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی، اور وہ اپنے رب کی جانب کان لگائے ہوئے ہے اور یہی اس کے لائق ہے۔ [الانشقاق: 1 – 5] پھر اس برتن سے متعلقہ خاتون پانی پیے اور یہی پانی اس کے پیٹ پر چھڑکا جائے۔
نکسیر کے لیے آیات قرآنیہ کی کتابت: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی پیشانی پر لکھا کرتے تھے : وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ترجمہ: اور کہا گیا: اے زمین تو اپنا پانی نگل لے، اور اے آسمان تو تھم جا، اور پانی خشک کر دیا گیا اور ان کا کام تمام کر دیا گیا، اور کشتی جودی پر رک گئی۔ [ھود: 44] ۔ میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ: انہوں نے متعدد لوگوں کی پیشانی پر یہ آیت لکھی تو انہیں نکسیر سے نجات مل گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ: کچھ جاہل لوگ اسے نکسیر کے خون سے لکھتے ہیں جو کہ بالکل جائز نہیں ہے؛ کیونکہ خون تو نجس ہے، اس لیے کلام الہی کو نجس خون کے ساتھ لکھنا جائز نہیں ہو گا۔
اسی طرح ڈاڑھ کے درد کے لیے درد والی جانب رخسار پر لکھا جائے گا: بسم اللہ الرحمن الرحیم قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ ترجمہ: کہہ دیجیے! وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لیے سماعت ، بصارت، اور دل بنائے، تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔[الملک: 23]
ڈاڑھ کے درد کے لیے یہ بھی لکھ سکتے ہیں: وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ترجمہ: دن اور رات میں جو بھی سکون کے ساتھ ہے اللہ ہی کی ملکیت ہے، اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔[الانعام: 13]
پھوڑے پھنسی کے علاج کے لیے اس پر لکھا جائے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا * فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا * لَا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا ترجمہ: وہ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں: تو آپ کہہ دیں: انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کر کے اڑاے دے گا، اور انہیں ایک صاف چٹیل میدان بنا کر چھوڑ دے گا، جس میں تو کوئی اونچ نِیچ نہ دیکھ پاؤ گے۔[طہ: 105 – 107] " ختم شد
"زاد المعاد" (4/327-329)
سوم:
قرآن کریم کے ذریعے گنجے پن کا علاج ہمیں کہیں نہیں ملا، لیکن بات وہی ہے جو پہلے گزر چکی ہے کہ قرآن کریم شفا ہے کہ جب یقین، ایمان، اور اللہ تعالی سے تعلق مضبوط ہو تو قرآن کریم شفا کا باعث ہے۔ پھر یہ بھی واضح رہے کہ شفا دینے والی ذات اللہ رب العالمین کی ذات ہے، وہ اپنی مشیئت اور قدرت سے جسے چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے عمومی علاج معالجے میں ہوتا ہے کہ لوگ ادویات کا استعمال متعلقہ بیماری کے ماہر ترین معالج کے مشورے سے کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس سے شفا یابی نہیں ہوتی، تو کیا اس وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دوا اس مرض کا علاج نہیں ہے یا اس معالج کو کسی چیز کا پتہ نہیں ہے!؟
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب