ہمارے ادارے کی طرف کچھ ملازمین کو ذاتی موبائل فراہم کیا جاتا ہے تا کہ اسے دفتری کاموں میں استعمال کر سکیں، موبائل کے ساتھ سم کارڈ بھی ہوتا ہے، ہمیں ماہانہ دس دینار بطور بیلنس دئیے جاتے ہیں، اور دس دینار کا بونس آف نیٹورک کال کے لیے ، جبکہ ایک جی بی انٹرنیٹ بھی اس میں موجود ہوتا ہے، ہمارے دفتر کے افراد کا آپس میں رابطہ مفت میں ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے موبائل کال کے لیے دیا جانے والا بیلنس دفتر سے باہر کال کرنے میں ہی صرف ہوتا ہے، اس کے لیے اضافی چارجز ادا نہیں کرتے پڑتے انٹرنیٹ تو ہر ماہ ضائع ہی ہوتا ہے، ادارے کا کوئی بھی کام اس سے نہیں لیا جاتا، چنانچہ آف نیٹ ورک کالوں کے لیے ملنے والا بونس بھی ہر ماہ ضائع جاتا ہے، اور ہر ماہ نیا بیلنس دے دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ آف نیٹ ورک کالوں اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کی وجہ سے ادارے کا کوئی نقصان نہیں ہو گا، نہ ہی ادارے کو اس کی کوئی اضافی رقم ادا کرنی ہو گی؛ کیونکہ ادارہ ماہانہ پیکج فعال کروا دیتا ہے اور اس پیکج میں یہ سب چیزیں شامل ہوتی ہیں، تو اب سوال یہ ہے کہ آف نیٹ ورک کال اور انٹرنیٹ کی ضائع ہونے والی سہولت کو ذاتی استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟
دفتری موبائل کا بیلنس مہینے کے آخر میں بچ جائے تو اسے ذاتی استعمال میں لانے کا حکم
سوال: 321464
جواب کا خلاصہ
دفتر کی ضرورت سے زائد کال کرنے کی سہولت یا فری بیلنس اگر وقت گزرنے پر ختم ہو جاتا ہے کہ اسے دفتر کی کسی بھی ضرورت کے تحت استعمال نہیں کیا جا سکتا : تو ظاہر یہی ہے کہ فضول میں ضائع ہونے کی بجائے دفتر کا ملازم انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے یہ بہتر ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مال کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور یہاں دفتری ضروریات سے زائد بیلنس جس سے استفادہ کرنے کی چاہت بھی ادارے کے ہاں نہیں پائی جاتی ؛ وقت گزرنے پر ضائع ہو جائے گا۔ تاہم اگر ادارے کے ذمہ داران سے اجازت لینا ممکن ہو تو یہ زیادہ بہتر اور اچھا ہے، اور ہر صورت میں بری الذمہ ہونے کا باعث ہے۔
Table Of Contents
اول: دفتری اشیا کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا حکم
بنیادی طور اصول یہی ہے کہ دفتر کا موبائل دفتری کاموں میں ہی استعمال ہو، چنانچہ موبائل اور موبائل میں موجود بیلنس ملازم کے پاس ادارے کی امانت ہے، اس لیے اس امانت میں اجازت کے ساتھ ہی تصرف کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا یہ حکم عام ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے اموال کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ، الّا کہ باہمی رضا مندی کے ساتھ تجارت ہو۔[النساء: 29]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا [یوم عرفہ کے بارے میں خطبہ حج کے دوران ] فرمان ہے: (یقیناً تمہاری جانیں، ما ل و دولت، اور عزتیں آپس میں اسی طرح حرمت والی ہیں جیسے آج کا دن اس مہینے میں اور اس شہر میں حرمت والا ہے، یہ بات تمام حاضرین دیگر تمام لوگوں تک پہنچا دیں) اس حدیث کو امام بخاری: (67) اور مسلم : (1679)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (کسی بھی شخص کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا) اس حدیث کو امام احمد: (20172) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے "إرواء الغليل" (1459) میں صحیح کہا ہے۔
اسے یوں سمجھیں کہ اگر کسی ملازم کو بیلنس بطور تحفہ دیا جائے اور ساتھ یہ شرط لگائی جائے کہ انہیں مخصوص کالوں میں ہی صرف کرنا ہے تو پھر ملازم کو اس شرط کا خیال رکھنا ضروری ہو گا، تو جو سہولت صرف دفتری امور کو نمٹانے کے لیے ہی دی جائے تو اس میں اس چیز کا خیال رکھنا اس سے بھی ضروری ہو گا۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں ہمارے ہاں اصول یہ ہے کہ: لوگوں سے کسی خاص مد میں رقوم جمع کرنے والا شخص اگر کسی اور مد میں اس رقم کو صرف کرنا چاہے تو تعاون کرنے والوں سے اجازت لے کر ہی کر سکتا ہے۔" ختم شد
"اللقاء الشهري" (4/ 9)
اسی طرح الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"دفتر میں حکومت کی جانب سے مہیا کی گئی بعض معمولی چیزیں مثلاً: پین، لفافہ، پیمانہ وغیرہ سرکاری ملازم اپنی ذات کے لیے استعمال کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب میں کہا:
"دفاتر میں حکومت کی جانب سے مہیا کی گئی چیزوں کو ذاتی کاموں میں استعمال کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے لازم کردہ امانت داری سے متصادم عمل ہے۔
ہاں البتہ ایسی معمولی چیز جس کے استعمال سے کوئی نقصان نہیں ہو گا جیسے کہ پیمانہ وغیرہ استعمال کرنا کہ جس سے کوئی اثر بھی نہیں پڑے گا اور نہ ہی کوئی نقصان ہو گا۔ تاہم سرکاری قلم، کاغذ، اور فوٹو اسٹیٹ مشین کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (4/ 306)
دوم: دفتری ضرورت سے زائد منٹ اور فری بیلنس استعمال کرنے کا حکم
دفتر کی ضرورت سے زائد کال کرنے کی سہولت یا فری بیلنس اگر وقت گزرنے پر ختم ہو جاتا ہے اسے دفتر کی کسی بھی ضرورت کے تحت استعمال نہیں کیا جا سکتا : تو ظاہر یہی ہے کہ فضول میں ضائع ہونے کی بجائے دفتر کا ملازم انہیں ذاتی استعمال میں لے آئے یہ بہتر ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مال کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور یہاں دفتری ضروریات سے زائد بیلنس جس سے استفادہ کرنے کی چاہت بھی ادارے کے ہاں نہیں پائی جاتی ؛ وقت گزرنے پر ضائع ہو جائے گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (15/ 391) میں ہے کہ:
"سوال: میں اپنے دفتر میں استعمال ہونے والی کچھ چیزیں گھر لے جاتا ہوں، مثلاً: فوٹو کاپی مشین کے صاف کاغذ، ٹائپ رائٹر میں استعمال شدہ انک ریبن ، یا قلم وغیرہ یا پھر فوٹو کاپی مشین اپنے ذاتی کام کے لیے استعمال کر لیتا ہوں، یہ چیزیں میں اپنے دوست کو تحفہ دے دیتا ہوں یا پھر میں خود بھی رکھ لیتا ہوں، بسا اوقات اپنے منیجر سے اجازت لے لیتا ہوں اور وہ مجھے کبھی اجازت دے بھی دیتا ہے، اور کبھی اجازت نہ ملے تو میں چپکے سے لے جاتا ہوں، تو کیا ان چیزوں کو منیجر کی لا علمی یا بغیر اجازت کے لے جانا حرام ہے؟ واضح رہے کہ یہ چیزیں مینجر کی ملکیت میں نہیں ہیں، نہ ہی کمپنی میں کسی کی ذاتی ملکیت ہیں، اسی طرح اگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو کہ کوڑا کرکٹ میں پھینک دی جائیں گی تو اگر میں انہیں اٹھا لیتا ہوں تو کیا یہ غلط ہے؟ مجھے اس بارے میں رہنمائی دیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
جواب: کسی بھی ملازم یا مزدور کے لیے کمپنی ، یا ادارے یا ان کی ملکیت میں موجود چیزوں میں سے کسی چیزکو ذاتی کام کے لیے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بلا اجازت دوسروں کے حقوق پر جارحیت ہے، اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کسی بھی مسلمان شخص کا مال اس کی ذاتی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہے۔)
چنانچہ اگر کوئی چیز ایسی ہے جسے وہ کوڑا کرکٹ میں پھینک دیں گے تو اسے اٹھانے میں کوئی مانع نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے مالکان نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
بکر ابو زید عبد العزیز آل الشیخ صالح الفوزان عبد اللہ غدیان عبد الرزاق عفیقی عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
تاہم اگر ادارے کے ذمہ داران سے اجازت لینا ممکن ہو تو یہ زیادہ بہتر اور اچھا ہے، اور ہر صورت میں بری الذمہ ہونے کا باعث ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب