میں میڈیکل لیبارٹری میں کام کرتا ہوں، ہم خون سے سیرم (Serum) الگ کرتے ہیں اور پھر اس سیرم (Serum) کے معیاری ہونے کو جانچتے ہیں؛ کیونکہ اسی سیرم (Serum) سے شوگر، یوریا، اور کولیسٹرول وغیرہ کے اعداد شمار حاصل ہوتے ہیں، نیز میڈیکل لیبارٹریاں اسی سیرم (Serum) کو اپنے ہاں استعمال بھی کرتی ہیں، تو کیا سیرم (Serum) کی فروختگی خون کی فروختگی میں شامل ہو گی؟
میڈیکل لیبارٹریوں کو خون کے سیرم (Serum)فروخت کرنے کا حکم
سوال: 323728
Table Of Contents
اول:
سیرم (Serum) فروخت کرنے کا حکم
خون کا ست جسے علمی طور پر سیرم (Serum) کہتے ہیں اسے فروخت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ صحیح بخاری: (5945) میں سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کی قیمت اور کتے کی قیمت سے منع کیا، اسی طرح آپ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، ٹیٹو بنانے والی اور بنوانے والی سے منع کیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "فتح الباری" (4/ 427) میں کہتے ہیں:
"پانچواں حکم: خون کی قیمت کی حرمت۔ یہاں اس سے مراد کیا چیز ہے؟ اس بارے میں مختلف آرا ہیں، چنانچہ ایک موقف کے مطابق سنگی لگانے کی اجرت مراد ہے، جبکہ دوسرے موقف کے مطابق خون کی قیمت ہی مراد ہے، یعنی خون کی خرید و فروخت حرام ہے، بالکل ایسے ہی جیسے مردار اور خنزیر کی خرید و فروخت حرام ہے۔ چنانچہ خون فروخت کرنا اور اس کی قیمت وصول کرنا بالاجماع حرام ہے۔" ختم شد
دوم:
آپ سیرم (Serum) فروخت نہ کریں، بلکہ جسے سیرم (Serum) چاہیے وہ لیبارٹری کے پاس خون لائے اور لیبارٹری اسے مناسب فیس کے عوض خون سے سیرم (Serum) الگ کر کے دے اور اس کے اعداد و شمار بھی بتلا دے۔
سوم:
اگر کسی کو سیرم (Serum) چاہیے اور مفت میں دستیاب نہ ہو
اگر کسی کو سیرم (Serum) کی ضرورت ہو اور معاوضے کے بغیر کہیں سے سیرم (Serum) دستیاب نہ ہو، یا خون سے سیرم (Serum) الگ کرنے اور اس کے اعداد و شمار دینے کی سروس کوئی اجرت کے عوض بھی فراہم نہ کر رہا ہو تو پھر سیرم (Serum) حاصل کرنے کے لیے پیسے ادا کرنا جائز ہے، تاہم سیرم (Serum) کی قیمت وصول کرنے والے کے لیے یہ رقم حرام ہو گی۔
جیسے کہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ اکادمی کے 13 تا 20 رجب 1409 ہجری کے دوران مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والے گیارہویں اجلاس کے بیان میں ہے کہ:
"خون کا معاوضہ لینا، یا دوسرے لفظوں میں خون کی فروختگی کے بارے میں اجلاس کا موقف ہے کہ یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کریم میں خون کی حرمت کو مردار اور خنزیر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اس لیے خون فروخت کرنا جائز نہیں ہے، نہ ہی اس کا معاوضہ لینا جائز ہے، اور صحیح حدیث میں ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی جس وقت کسی چیز کو حرام قرار دے دے تو اس کی قیمت کو بھی حرام قرار دے دیتا ہے۔) اسی طرح یہ بھی صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کی فروختگی سے منع فرمایا ہے۔
تاہم طبی بنیادوں پر ضرورت پڑنے کی صورت میں استثنائی کیفیت بن سکتی ہے کہ کوئی بھی مفت میں خون کا عطیہ دینے والا نہ ہو تو پھر ضرورت پڑنے پر ممنوعہ کاموں کی گنجائش بن جاتی ہے کہ اس کے تحت اتنی ہی گنجائش مل سکتی ہے کہ جس سے ضرورت پوری ہو جائے، ایسی صورت میں ضرورت مند خون کی قیمت ادا کر دے لیکن اس کا گناہ قیمت وصول کرنے والے پر ہو گا۔
تاہم تحفے اور عطیے کی صورت میں کچھ رقم دے دی جائے تو اس میں کوئی مانع بھی نہیں ہے ، مقصد یہ ہو کہ انسانی بنیادوں پر کام آنے والے کی حوصلہ افزائی ہو، ایسی صورت میں یہ رقم عطیہ ہو گی، قیمت شمار نہیں ہو گی۔" ختم شد
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب