كيا ميں فوٹو گرافر كى دوكان پر كام كر سكتا ہوں، جہاں غير مسلم لوگ آتے ہيں، اور ميں ان كى فلموں سے تصاوير نكالتا ہوں، اور ان فلموں ميں جو تصاوير بھى ہوتى ہيں؟
ميں اس دوكان پر يہ سمجھتے ہوئے كام كرتا ہوں كہ يہ حلال ہے، ليكن اگر كسى شرعى دليل كى بنا پر يہ كام حرام ہے تو كيا ميں اس وقت تك يہ كام كر سكتا ہوں جب تك مجھے كوئى اور حلال كام نہ مل سكے، فتوى سے نواز كر مشكور ہوں ؟
فوٹو گرافر كى كمائى
سوال: 3243
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مستقل فتوى اينڈ ريسرچ كميٹى كے فتاوى جات ميں فتوى نمبر (6402) ميں ہے كہ:
” ذى روح كى تصاوير حرام ہيں، اور كمائى بھى حرام ہے” انتھى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء فتوى نمبر ( 6402)
اور پھر مسئلہ يہ ہے كہ جب اللہ تعالى نے كوئى چيز حرام قرار دى تو اس كى قيمت بھى حرام كردى، لھذا ذى روح كى تصاوير حرام ہيں، جيسا كہ صحيح دلائل سے بھى يہى ثابت ہے.
تو اس طرح اس كى كمائى بھى خبيث اور ناپاك ہو گى اس كا كھانا جائز نہيں، اور اس سے وہ تصاوير مستثنى ہونگى جو ضرورى ہوں اور جن كى حاجت ہو، مثلا شناختى كارڈ والى ذاتى تصاوير، اور جو مجرموں كى تلاش كے ليے تصاوير استعمال ہوتى ہوں، يا اس طرح كى دوسرى تصاوير.
تو يہ تصاوير بنانا اور ان كى اجرت حاصل كرنا جائز ہو گى، اور سائل كے ليے ممكن ہے كہ وہ تصاوير بنائے جو ذى روح كى نہ ہوں، يا پھر اسے كسى اور كام كى تلاش كرنى چاہيے، كيونكہ جو كوئى شخص بھى اللہ تعالى كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے، اسے اللہ تعالى اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد