0 / 0

وہ كونسے غارمین [کسی کا قرضہ چکانے کیلئے خود ذمہ داری لینے والا]ہيں جنہيں زكاۃ ادا كى جا سكتى ہے ؟

سوال: 32468

كيا زكاۃ كا مال غارمین [کسی کا قرضہ چکانے کیلئے خود ذمہ داری لینے والے]اشخاص كو ديا جائے گا يا كہ قرض خواہ كو ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

غارم [چٹی اٹھانے والے] اشخاص كو زكاۃ دينى جائز ہے، اسی طرح براہِ راست قرض خواہ كو بھى زكاۃ كا مال دينا جائز ہے، اور مقروض كى حالت مختلف ہونے كى بنا پر زكاۃ كا مال دينے كا طريقہ بھى مختلف ہو گا۔

شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيا جائز ہے كہ ہم قرض دينے والے شخص كے پاس جا كر اسے مال ديں اور مقروض شخص كو اس كا علم بھى نہ ہو؟

تو انہوں نے جواب دیا:

جى ہاں جائز ہے؛ اس لئے کہ یہ اللہ تعالى كے فرمان: وفي الرقاب یعنی گردن چھڑانے میں شامل ہے، اس لئے کہ "الرقاب" حرف جر "فى" كى وجہ مجرور ہے، اور "الغارمين" كا "الرقاب" پر عطف ہے، اور معطوف کیلئے وہى حرف عطف مقدر مانا جائے گا جو معطوف عليہ پر ہے لہذا تقديری عبارت " و فى الغارمين" ہو گى، اور حرف "فى " ملكيت پر دلالت نہيں كرتا، تو اس طرح غارم کو دينا جائز ہوگا۔

اگر كوئى يہ كہے كہ: كيا يہ بہتر ہے كہ ہم مقروض كو ديں تا كہ وہ قرض خواہ كو ادا كر دے، يا كہ ہم براہِ راست قرض خواہ كو ديں؟

جواب: اس ميں تفصيل ہے:

اگر تو مقروض شخص قرض كى ادائيگى كرنے ميں حريص ہو تو افضل يہى ہے كہ اسےہی دے ديا جائے تا كہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ادائيگى كرے اور لوگوں ميں شرمندہ ہونے سے محفوظ رہے۔

اور اگر اس كا خدشہ ہو كہ وہ يہ رقم ضائع كر بيٹھے گا تو پھر ہم اسے نہيں ديں گے، بلكہ ہم قرض خواہ كے پاس جائيں گے اور مقروض كى طرف سے ادائيگى كردینگے۔

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 234 – 235 )

یہاں متنبہ رہنا چاہيے كہ غارم ، مقروض وہ ہے جو [مثال کے طور پر]نفقہ سے عاجز ہونے كى بنا پر ، يا [قرض کیلئے ] جھگڑا كرنے والوں كے مابين اصلاح كروانے كى بنا پر نقصان اٹھائے۔

دائمی فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

اگر کسی شخص نے مجبور ہوکرقرض لیا تاکہ مکان کی تعمیر، یا مناسب سا لباس، یا -جنکا خرچہ اسکے ذمہ ہے-جیسے باپ، اولاد، بیوی وغیرہ کا خرچہ،یا ذریعہ معاش اور اہل خانہ کا خرچہ نکالنے کیلئے گاڑی کی خریداری کرسکے، لیکن بعد میں اسکے پاس قرض کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے، تو ایسے شخص کو قرضہ کی ادائیگی کیلئے زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے۔

اور اگر ضرورت سے زائد زمین ، یا صرف سیاحت وتفریح کیلئے گاڑی کی خریداری کی، تو ایسے شخص کو زکاۃ نہیں دی جاسکتی۔

اقتباس از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 8 – 9 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android