0 / 0
3,46005/06/2020

کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے تو اس وقت مسلمان کو شرعی نقطہ نظر سے کیا کرنا چاہیے؟

سوال: 334353

آج کل کورونا کویڈ 19 [Corona covid 19] وائرس پھیلا ہوا ہے تو مسلمان کو ان دنوں میں کیا کرنا چاہیے؟ نیز اللہ تعالی ہم سے اس وبا کو کیسے دور فرمائیں گے؟ اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں اجر و ثواب سے نوازے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

جب آزمائشیں اور وبائیں آتی ہیں تو ان کا علاج اللہ تعالی کی جانب رجوع اور اسی کے سامنے گڑگڑانے سے ممکن ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ کسی کی حق تلفی کی ہے تو اس کی تلافی کریں، کثرت کے ساتھ استغفار، تسبیح اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھنے کا اہتمام کریں، اللہ تعالی سے عافیت مانگیں، طبی تنہائی جیسی احتیاطی تدابیر اپنائیں اور علاج کروائیں نیز اگر اس کی ویکسین اور علاج موجود ہو تو وہ بھی استعمال کریں اور علاج کروائیں۔

  1. توبہ اور بارگاہ الہی میں گڑگڑانے کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے کہ:  وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (42) فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 
    ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیجے تو ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی سے دعا کیا کریں [42] پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیے۔ [الأنعام:42- 43]

ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر (3/ 256) میں کہتے ہیں کہ:
" وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ   کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں غربت اور تنگ زندگی میں جکڑ لیا، اور وَالضَّرَّاءِ سے مراد بیماریاں، وبائی امراض، اور تکالیف ہیں،   لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ  یعنی اللہ تعالی سے مانگیں اسی سے گڑگڑا کر دعائیں کریں اور اسی کی بارگاہ میں عاجزی کا اظہار کریں۔  فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا یعنی: جب ہم نے انہیں اس کیفیت میں لا کر آزمائش میں ڈالا تو پھر انہوں نے ہماری طرف رجوع کیوں نہیں کیا اور ہمیں اپنی ناتوانی کا اظہار کرتے ہوئے کیوں نہیں پکارا، لیکن وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ   ان کے دل نرم نہ ہوئے، نہ ہی ان دلوں میں عاجزی پیدا ہوئی، بلکہ الٹا وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ  شیطان نے انہیں ان کے شرکیہ اعمال اور نافرمانیوں کو ہی ان کے لیے اچھے اقدامات بنا کر پیش کر دیا" ختم شد

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ 
 ترجمہ: اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال یقینی طور پر ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔ [التوبہ:126]

اور یہ بات واضح ہے کہ آزمائش صرف گناہوں کی وجہ سے ہی اترتی ہے، اور توبہ کے بغیر نہیں جاتی، جیسے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی دعائے استسقا میں اس بات کا ذکر فرمایا۔

جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (2/ 497) فتح الباری میں کہتے ہیں:
"زبیر بن بکار نے اپنی کتاب الانساب میں اس وقوعہ کے موقع پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کا ذکر کیا ہے، چنانچہ وہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ سے دعائے استسقا کروائی تو انہوں نے فرمایا:  اَللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَآءٌ إِلَّا بِذَنْبٍ ، وَلَمْ يُكْشَفْ إِلَّا بِتَوْبَةٍ  یعنی : یا اللہ! یقیناً ہر بلا گناہ کی وجہ سے ہی نازل ہوتی ہے اور انہیں توبہ کے ذریعے ہی ہٹایا جاتا ہے "

       2.جبکہ استغفار تو صحت ، طاقت اور آسودہ زندگی کا باعث ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ 
ترجمہ: اور یہ بھی کہ تم اپنے رب سے بخشش طلب کرو اور اسی کی جانب رجوع کرو تو وہ تمہیں ایک مقررہ وقت تک بہترین زندگی دے گا اور ہر اچھے کام کرنے والے کو اپنا فضل عطا فرمائے گا۔[هود:3]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 وَيَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ  
ترجمہ: اے میری قوم! تم اپنے رب سے گناہوں کی بخشش طلب کرو اور پھر اسی کی طرف رجوع بھی کرو، تو وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ بھی کرے گا، چنانچہ تم منہ موڑ کر مجرم مت بنو۔[ھود:52]

         3.جبکہ تسبیح کے بارے میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سیدنا یونس کے بارے میں بتلایا کہ انہیں تسبیح کی وجہ سے ہی تکلیف سے نجات دی، اور یہ بھی اشارہ کیا کہ اہل ایمان بھی اسی طرح نجات پاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (87) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ 
ترجمہ: اور مچھلی والے [یونس] کو بھی ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا جب وہ غصے سے بھرے ہوئے چلے گئے؛ انہیں یہ گمان تھا کہ ہم ان پر گرفت نہ کر سکیں گے، پھر انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ: " تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا"(87) تب ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور انہیں اس غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان رکھنے والوں کو بھی نجات دیا کرتے ہیں۔ [الانبیاء: 87- 88]

سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
 فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ (143) لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ 
ترجمہ: چنانچہ اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہو تے تو (143) لوگوں کو اٹھائے جانے کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔[الصافات: 143- 144]

سیدنا یونس علیہ السلام کے بارے میں ہی مسند احمد: (1462) اور جامع ترمذی: (3505) میں ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ذی النون [ سیدنا یونس علیہ السلام] کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی:  لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ   [یعنی: تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، تو پاکیزہ ترین ہے، یقیناً میں ہی ظالموں میں سے ہوں] کوئی بھی مسلمان اپنی کسی بھی حاجت میں مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ اس دعا کے متعلق کہتے ہیں:
"سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کسی بھی نبی کو کوئی بھی تکلیف پہنچتی تو وہ تسبیح کے ذریعے ہی اللہ تعالی سے داد رسی کا مطالبہ کرتے تھے" ماخوذ از: الجواب الكافی، صفحہ: 14

             4.اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کا عمل ہمہ قسم کی پریشانی اور دکھ کو رفع کرنے کا عظیم ترین ذریعہ ہے۔

جیسے کہ مسند احمد: (21242) میں ہے اور جامع ترمذی کی حدیث: (2457)کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ: سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رات کے دو تہائی حصے گزر جاتے تو کھڑے ہو کر فرماتے: (لوگو! اللہ کو یاد کرو، اللہ کو یاد کرو، حرکت کرنے والی قیامت آ گئی ہے [ یعنی نفخہ اولی کا وقت قریب ہو چکا ہے] اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے [ یعنی نفخہ ثانیہ کا وقت بھی قریب ہو چکا ہے] ، موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی ہے۔ موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی ہے ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت درود پڑھا کرتا ہوں تو میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کروں؟ آپ نے فرمایا: ( جتنا تم چاہو) ، میں نے عرض کیا ایک چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: ( تمہاری مرضی ہے، لیکن اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے)، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ( تمہاری مرضی ہے، لیکن ا گر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے) میں نے عرض کیا دو تہائی؟ آپ نے فرمایا: ( تمہاری مرضی ہے، لیکن اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے لیے بہتر ہے) میں نے عرض کیا: میں سارا وقت ہی آپ پر درود پڑھا کروں؟۔ آپ نے فرمایا: (تب تو یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بھی بخش دیئے جائیں گے)

جبکہ مسند احمد کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ابی بن کعب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! آپ وضاحت فرمائیں کہ اگر میں اپنی ساری دعا میں ہی آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں [ تو کیسا رہے گا؟] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تب تو اللہ آپ کو دنیا و آخرت کی تمام پریشانیوں کے مقابلے کے لیے کافی ہو جائے گا۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ اور مسند احمد کے محققین نے حسن قرار دیا ہے۔

اس حدیث کی تفصیلات کے متعلق علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے اپنی کتاب"جلاء الافہام" صفحہ: (79) میں نقل کیا ہے کہ:
"ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے لیے مخصوص دعا کیا کرتے تھے، تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے استفسار فرمایا: کیا اپنی دعا کا ایک چوتھائی حصہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود کے لیے مختص کر دے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم اس سے زیادہ کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) اس پر ابی بن کعب نے کہا: تو آدھی دعا؟ آپ نے فرمایا: (اگر تم اس سے زیادہ کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) تو بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تو میں اپنی ساری کی ساری دعا ہی آپ پر درود کے لیے مختص کر دیتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تب تو تمہاری ساری پریشانیاں ختم کر دئی جائیں گی اور تمہارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے) اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک بار درود پڑھنے سے اللہ تعالی دس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور جس پر اللہ تعالی رحمت نازل فرما دے تو اللہ اس کی پریشانیاں ختم فرما دیتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔" ختم شد

             5.جبکہ اللہ تعالی سے عافیت طلب کرنے کا عمل تو صبح و شام جائز ہے، اور جس وقت وبائی امراض پھیل چکی ہوں تو اس وقت ان کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ مسند احمد: (4785)، ابو داود: (5074) اور ابن ماجہ: (3871) میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب بھی صبح یا شام ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ الفاظ لازمی پڑھتے تھے:  اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اَللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي، وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اَللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي  [ترجمہ: یا اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی عافیت کا سوال کرتا ہوں ۔ یا اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا میں اور اپنی ذریت و دولت میں معافی اور عافیت کا طلب گار ہوں ۔ یا اللہ ! میرے عیب چھپا دے ۔ مجھے میرے خدشات اور خطرات سے امن عنایت فرما۔ یا اللہ ! میرے آگے ، پیچھے ، دائیں ، بائیں اور میرے اوپر سے میری حفاظت فرما ۔ اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اپنے نیچے کی طرف سے ہلاک کر دیا جاؤں ۔] یعنی مجھے دھنسا دیا جائے۔

اسی طرح مسند احمد: (20430) اور ابو داود: (5090) میں ہے کہ عبد الرحمن بن ابو بکرہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے کہا: ابا جان! آپ روزانہ صبح کے وقت میں کہتے ہیں:  اَللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي، اَللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِي، اَللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ [ترجمہ: یا اللہ! میرے بدن کو عافیت عطا فرما، یا اللہ! میری سماعت کو عافیت سے نواز، یا اللہ! میری بصارت کو عافیت دے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔] آپ یہ کلمات صبح کے وقت بھی اور شام کے وقت بھی تین تین بار کہتے ہیں۔ تو اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے، اور مجھے آپ کی سنت پر عمل کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔

یہاں درج ذیل احادیث میں مذکور مفید دعاؤں کو ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا:

جیسے کہ جامع ترمذی میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے:  اَللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِسَمْعِي وَبَصَرِي وَاجْعَلْهُمَا الوَارِثَ مِنِّي، وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ يَظْلِمُنِي، وَخُذْ مِنْهُ بِثَأْرِي [ترجمہ: یا اللہ! مجھے میری سماعت اور بصارت سے لطف اندوز فرما، اور ان دونوں کو میرا وارث بنا، مجھ پر ظلم کرنے والے کے خلاف میری مدد فرما، اور میرا بدلہ اس سے خود ہی لے لے] "
حدیث کے الفاظ: " ان دونوں کو میرا وارث بنا " کا مطلب یہ ہے کہ جب مجھے موت آئے تو تب بھی یہ صحیح سلامت ہوں ، جیسے وارث مورث کی موت کے وقت صحیح سلامت ہوتا ہے۔

اسی طرح مسند احمد: (13004) ، ابو داود: (1554) اور نسائی: (5493) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے:  اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ [ترجمہ: یا اللہ! میں برص، پاگل پن ، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ]

اسی طرح مسند احمد: (528) ابو داود: (5088) ، ترمذی: (3388) ، اور ابن ماجہ: (3869) میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو شخص بھی کہے:   بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ   [ترجمہ: اللہ کے نام سے میں پناہ حاصل کرتا ہوں جس کے نام سے کوئی بھی چیز آسمان یا زمین میں تکلیف نہیں پہنچاتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے] جس نے یہ دعا صبح کے وقت تین بار پڑھی تو شام تک اسے کوئی بھی ناگہانی آفت نہیں پہنچے گی ۔"

                  6.جبکہ اسباب بروئے کار لاتے ہوئے طبی تنہائی یعنی آئسولیشن یا علاج معالجہ اختیار کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ میں حکم موجود ہے کہ علاج کرانا چاہیے، اسی طرح بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات بھی کرنے چاہییں، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیمار شخص کو صحت مند لوگوں میں لے جانے سے منع کیا، اسی طرح ایسی جگہ جانے سے بھی منع فرمایا جہاں پر طاعون پھیل چکا ہو؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (علاج معالجے کا اہتمام کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کا علاج بھی رکھا ہے، سوائے بڑھاپے کے) اس حدیث کو احمد: (17726) ، ابو داود: (3855)، ترمذی: (2038) اور ابن ماجہ: (3436) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جو شخص بھی سات عجوہ کھجوریں صبح کے وقت کھا لے تو اس دن اسے زہر یا جادو نقصان نہیں پہنچائے گا)اس حدیث کو امام بخاری: (5769) اور مسلم : (2057)نے روایت کیا ہے۔

نیز بخاری: (5771) اور مسلم: (2221) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی [ وبائی مرض میں مبتلا] بیمار شخص صحت مند افراد کے پاس مت جائے)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ، اور جہاں تم رہ رہے ہو اس علاقے میں طاعون پھوٹ پڑے تو تم وہاں سے مت نکلو۔)اس حدیث کو امام بخاری: (5728) اور مسلم : (2218)نے روایت کیا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وبائی امراض اور مصیبتیں ہم سے دور فرما دے۔
واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android