0 / 0
20,71602/08/2003

زنا سے پیدا شدہ لڑکی کا سوال کہ میں کس کی بیٹی ہوں

سوال: 33591

میں ایک غیرشرعی لڑکی ہوں ، والدین کی شادی کے وقت میری عمر دس ماہ تھی ، اوراب دوسال سے انہیں طلاق ہوچکی ہے ، میں نے پیدائش سے لیکر آج تک اپنے والد کی طرف نسبت کرتےہوۓ انہی کا نام استعمال کیا اوروہ بھی مجھے اپنی بیٹی ہونے کا اعتراف کرتا ہے ، توکیا میں اب اپنا نام بدلتے ہوۓ نسبت والدہ کی طرف کروں ؟

میں نے آپ کی ویب سائٹ پر جوابات کا مطالعہ کیا ہے جس میں یہ کہا گيا ہےکہ مجھ پر ضروری اورواجب ہے کہ میں والدہ کانام استعمال کروں ، لیکن شیخ ابن جبرین حفظ اللہ تعالی کا جواب اس کے برعکس ہے ۔

اورسوال نمبر ( 5967 ) کے جواب میں ذکر ہے کہ اگر والد اقرار کرے کہ وہ ہی بچے کا باپ ہے تو والد کا نام استعمال کرنا جائز ہے آپ سے گزارش ہے کہ آپ وضاحت کردیں ۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول :

ہم یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کا یقینی طور پر والدین کےجرم ( زنا ) سے کوئ تعلق نہیں ، اوراس بچے کے حقوق بھی باقی سب مسلمانوں کے حقوق کی طرح ہی ہیں چاہے وہ بچہ ہویا بچی ، اوراس بچے کوبھی چاہیۓ کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرے تا کہ اسے جنت حاصل ہوسکے ۔

دوم :

اگر عورت شادی شدہ ہوتو زانی کے بچے کووالد سے ملحق کرنے کے بارہ میں علماء کرام اس کے بارہ میں دو قول رکھتے ہیں کہ آیا بچے کی نسبت والد کی طرف ہوگی یا نہیں ؟

اس کا بیان کچھ اس طرح ہے :

اگرعورت شادی شدہ ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوجاۓ تواس بچے کی نسبت خاوند کی طرف ہی ہوگی اوراس سے بچے کی نفی نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کرے ۔

اوراگر کوئ شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اس عورت سے زنا کیا ہے اوریہ بچہ اس زنا سے ہے تواجماع کے اعتبارسے اس کی بات تسلیم نہیں ہوگی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔

اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟

جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔

حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔

اورشيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے

( علی بن عاصم نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت کیا ہے کہ ان کا قول ہے : میرے خیال میں اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زنی کرے اوراس سے وہ حاملہ ہو اوروہ اس حمل میں ہی اس سے شادی کرلے اوراس پر پردہ ڈالے رکھے اوروہ بچہ اسی کا ہوگا ) ۔ المغنی ( 9 / 122 ) ۔

اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ہمارے شیخ اوراستاد ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے یہ اختیار کیا ہے کہ اگر کسی مرد نے اپنے زنا کی بچے کی نسبت اپنی کرنے کا مطالبہ کیا اوروہ عورت اس کی بیوی نہ ہوتواس بچے کے الحاق اس کی طرف کر دیا جاۓ گا ۔ ا ھـ دیکھیں : الفروع ( 6 / 625 ) ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

( جمہور کے قول کے مطابق اگرعورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کے بچے کا الحاق زانی سے نہیں ہوگا ، اورحسن ، ابن سیرین رحمہم اللہ تعالی کا قول ہے جب وطی کرنے والے کوحد لگا دی جاۓ توبچہ اس سے ملحق ہوگا اوروارث بھی ہوگا ۔

اورابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جب اسے حد لگا دی جاۓ اوریا پھر وہ زنی کی جانے والی عورت کا مالک بن جاۓ توبچے کی نسبت اس کی طرف کردی جاۓ گی ، اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : اس کا الحاق کر دیا جاۓ گا ۔

اوراسی طرح عروہ ، اورسلیمان بن یسار رحمہم اللہ تعالی سے بھی یہی قول منقول ہے ) ۔

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اوراسی طرح اگر عورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کےبچے کی زانی کی طرف نسبت کرنے میں اہل علم کے دو قول ہيں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ خاوند کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ صاحب فراش یعنی جس کی بیوی ہے اس کا قرار دیا ہے نہ کہ زانی کا ، اوراگر عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو حدیث اسے بیان نہیں کرتی ۔

اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جاھلیت میں پیدا ہونے والے بچوں کوان کے باپوں کی طرف ہی منسبوب کیا تھا ، اوراس مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 3 / 178 ) ۔

جمہور علماء کرام نے زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے میں مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :

عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادا سےبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :

( بلاشبہ جو کسی ایسی لونڈی سے ہوجواس کی ملکیت نہیں اوریا پھر کسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کيا تواس کا الحاق اس سے نہیں کیا جاۓ گا اورنہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا ، اوراگر وہ جس کا دعوی کررہا ہے وہ صرف اس کا دعوی ہی ہے اوروہ ولد زنا ہی ہے چاہے وہ آزاد عورت سے ہو یا پھر لونڈی سے )۔

مسنداحمد حدیث نمبر ( 7002 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2746 )، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اور شیخ ارنا‎ؤوط رحمہ اللہ نے تحقیق المسند میں اسے حسن قرار دیا ہے ، اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی نے اس سے جمہور کے مذھب کی دلیل لی ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ولد زنا زانی سے ملحق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس کا وارث بنے گا چاہے زانی اس کا دعوی بھی کرتا رہے ۔

اوراس میں شک نہیں کہ بچے کوکسی بھی شخص کی طرف منسوب کرنا بہت ہی عظيم اوربڑا معاملہ ہے جس کے بارہ میں بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا وراثت ، عزیزو اقارب ، اور اس کے لیے محرم وغیرہ ۔

بہرحال اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے کا فتوی جمہور علماء کرام کے موافق ہے ۔

اوررہا مسئلہ شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی کے بارہ میں توہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کلام کی بنیاد دوسرے قول پر رکھی ہو جوکہ اوپربیان کیا جا چکا ہے ۔

لھذا جمہور علماء کرام کے قول کے مطابق زنی سے پیدا شدہ بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی زانی کی طرف منسوب نہيں کیا جاۓ گا اورنہ ہی یہ کہا جاۓ گا وہ بچہ زانی کا ہے بلکہ اس کی نسبت ماں کی طرف کی جاۓ گی اور وہ بچہ ماں کا محرم ہوگا اورباقی بچوں کی طرح وارث بھی ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

( وہ بچہ جو زنا سے پیدا ہوا ہووہ اپنی ماں کا بچہ ہوگا اورباپ کا نہيں ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی فرمان ہے :

( بچہ بیوی صاحب فراش ( بیوی والے کا ہے ) اورزانی کے لیے پتھر ہيں )

اورعاھر زانی ہے جس کا بچا نہیں ، حدیث کا معنی تو یہی ہے ، اوراگر وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کرلے کیونکہ بچہ توپہلے پانی سے پیدا ہوا ہے اس لیے وہ اس کا بیٹا نہیں ہوگا اورنہ وہ بچہ زانی کا وارث ہوگا اوراگروہ اس کا دعوی بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے پھر نہیں اس لیے کہ اس کا وہ شرعی طور پربچہ ہی نہیں ) انتھی ۔ یہ قول فتاوی اسلامیہ ( 3 / 370 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔

اورشیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی میں ہے کہ زانی کے پانی سے پیدا شدہ بچہ زانی کا شمار نہیں ہوگا ۔ ا ھـ دیکھیں فتاوی شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ ( 11 / 146 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android