ميرى بيٹى نصرانى ( اہل كتاب ميں سے ) ہے اور ايك مسلمان شخص سے شادى كرنا چاہتى ہے ليكن اپنا دين تبديل نہيں كرنا چاہتى، دونوں ہى سنگاپور ميں رہتے ہيں، مجھے بتايا گيا ہے كہ اسلام ان دونوں كى شادى سے روكتا ہے اس ليے كہ وہ لڑكى مسلمان ہيں، مسلمان ہونے كے بعد اس سے شادى كر سكتى ہے كيا يہ كلام صحيح ہے ؟
اگر جواب نفى ميں ہے تو كيا ان دونوں كے ليے شريعت اسلاميہ كے مطابق شادى كرنى جائز ہے چاہے ميرى بيٹى عيسائى ہى رہے ؟
اور كيا شريعت اسلاميہ كے مطابق شادى كرنے كے بعد مسلمان شخص كے ليے عيسائى طريقہ كے مطابق شادى ميں شركت كرنا جائز ہے ؟
سوال لمبا ہونے پر ميں آپ سے معذرت خواہ ہوں ليكن يہ موضوع ميرے ليے خاندانى مشكلات كا سبب بن رہا ہے ميں اس كے متعلق اسلامى حكم معلوم كرنا چاہتا ہوں تا كہ كسى كو بھى ناراض كيے بغير ميں اس مشكل سے نكل سكوں اور اسے حل كروں ؟
مسلمان شخص كا عفت و عصمت كى مالك نصرانى عورت سے شادى كرنا
سوال: 33656
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دين اسلام كسى نصرانى عورت سے شادى كرنے سے منع نہيں كرتا ليكن شرط يہ ہے كہ وہ نصرانى عورت عفت و عصمت كى مالك ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اہل كتاب كا كھانا تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ان كے ليے حلال ہے، اور مومن عورتوں ميں سے پاكدامن عورتيں اور اہل كتاب كى پاكدامن عورتيں ( حلال ہيں ) جب تم انہيں ان كا مہر دے دو اس طرح كہ تم ان سے نكاح كرو، يہ نہيں كہ علانيہ زنا كرو يا پوشيدہ بدكارى كرو المآئدۃ ( 5 ).
اس آيت ميں محصنات كا معنى آزاد اور پاكدامن عورتيں ہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2527 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اگر عورت عفت و عصمت كى مالك نہيں بلكہ بدكار ہے، اور اس كے بوائے فرينڈ ہيں جن كے ساتھ تعلقات ركھتى ہے تو اسلام اس طرح كى عورت سے نكاح اور شادى كرنے سے منع كرتا ہے، چاہے وہ عورت مسلمان ہو يا اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہو.
اسى طرح دين اسلام مرد كو منع كرتا ہے كہ وہ گرل فرينڈ بنائے اور كسى عورت سے دوستى لگائے، يہ سب كچھ اس ليے ہے تا كہ ازدواجى زندگى كو تباہ ہونے سے بچايا جا سكے اور نسب كو بھى مخلوط ہونے اور ضائع ہونے سے محفوظ ركھا جا سكے اور تہمت و اختلاف اور غلط قسم كے گمان سے بچاؤ ہو.
رہا مسئلہ كسى مسلمان شخص كا نصرانى و عيسائى طور طريقہ پر منعقد شادى كى تقريب ميں شريك ہونے كا تو كسى بھى مسلمان كے ليے اس ميں شركت كرنى جائز نہيں، كيونكہ اس ميں بہت سارى اشياء اور امور ايسے پائے جاتے ہيں جنہيں اسلام حرام قرار ديا ديتا ہے، مثلا مرد و عورت كا اختلاط اور موسيقى سننا اور شراب نوشى كرنا اور رقص وغيرہ كرنا.
حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو بھى اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتا ہے وہ كسى ايسے دستر خوان پر مت بيٹھے جس پر شراب نوشى ہو رہى ہو "
مسند احمد ( 1 / 20 ) سنن البيھقى ( 7 / 366 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 7 / 6 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس اچھے اور قيمتى شعور اور اخلاق كريمہ اور اس طرح كے معاملہ ميں اسلامى حكم معلوم كرنے كے سوال كى حرص ركھنے پر ہم آپ كے شكر گزار ہيںن اور آپ كے ليے دعا گو ہيں كہ آپ كو دين اسلام كى ہدايت نصيب ہو، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات