گزارش ہے كہ دين اسلام ميں نماز كے مقام كى وضاحت كريں ؟
اسلام ميں نماز كا مقام
سوال: 33694
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اسلام ميں نماز كو بہت مقام اور مرتبہ حاصل ہے، اس كے مقام پر كوئى اور عبادت نہيں پہنچ سكتى….
اس كے مندرجہ ذيل دلائل ہيں:
اول:
يہ دين كا ركن اور ستون ہے جس كے بغير دين اسلام مكمل نہيں ہوتا…
حديث ميں ہے جسے معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا ميں تجھے سارے معاملہ ( يعنى دين ) كى چوٹى اور ستون اور اس كى كوہاں كى خبر نہ دوں ؟
تو ميں نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دين اسلام كى چوٹى اور اس كا ستون نماز ہے، اور اس كى كوہاں جھاد ہے .."
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2616 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2110 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
اس كا مرتبہ كلمہ شھادت كے بعد آتا ہے تا كہ يہ اعتقاد كے صحيح اور سليم ہونے كى دليل ہو، اور دل ميں جو كچھ جاگزيں ہوا ہے اس كى دليل اور تصديق ہو.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسلام كى بيناد پانچ چيزوں پر ہے، اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى اور معبود نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اور نماز قائم كرنے كا مطلب يہ ہے كہ: اسے مكمل طور پر اس كے افعال اور اقوال كے ساتھ اس كے معين كردہ اوقات ميں ادا كيا جائے جيسا كہ قرآن مجيد ميں وارد ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا مومنوں پر نماز وقت مقررہ پر فرض كى گئى ہے.
يعنى محدود اور معين وقت ميں.
سوم:
نماز كى فرضيت كے مقام اور مرتبہ كى بنا پر نماز كو باقى سارى عبادات ميں ايك خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے…
نماز ايسى عبادت ہے جسے كوئى فرشتہ لے كر زمين پر نازل نہيں ہوا ليكن اللہ سبحانہ وتعالى نے چاہا كہ وہ اپنے رسول محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو معراج كى نمعت سے نوازا اور خود بغير كسى واسطہ كے نماز كى فرضيت كے ساتھ مخاطب ہوا، اور اسلام كى سارى عبادات ميں سے نماز ہى ايك واحد عبادت ہے جسے يہ خصوصيت حاصل ہے.
نماز معراج والى رات فرض تقريبا ہجرت سے تين برس قبل فرض كى گئى.
اور پھر پچاس نمازيں فرض ہوئى تھيں، ليكن بعد ميں تخفيف كر كے اسے پانچ نمازوں ميں بدل ليا گيا، اور ثواب پچاس نمازوں كا ہى باقى ركھا گيا، جو كہ نماز كے ساتھ اللہ تعالى كى محبت كى دليل اور اس كے عظيم مقام و مرتبہ كى دليل ہے.
چہارم:
نماز كے ساتھ اللہ تعالى خطاؤں اور غلطيوں كو معاف فرماتا ہے:
بخارى اور مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ:
انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر تم ميں سے كسى كے گھر كے دروازے كے سامنے نہر ہو اور وہ اس ميں پانچ بار غسل كرے تو كيا اس كے بدن پر كوئى ميل كچيل باقى رہے گى ؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اس كے بدن پر كوئى ميل كچيل باقى نہيں رہے گى.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نماز پنجگانہ كى يہى مثال ہے، اللہ تعالى اس كے ساتھ گناہوں كو مٹاتا ہے"
" مجھے يہ بتاؤ كہ تمہارے دروازے كے سامنے نہر ہو اور اس ميں ہر روز پانچ بار غسل كرتا ہو تو كيا اس كے بدن كوئى ميل باقى رہے گى ؟
تو صحابہ نے عرض كيا: اس كے بدن پر كوئى ميل كچيل باقى نہيں رہے گى .
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو نماز پنجگانہ كى مثال بھى اسى طرح ہے، اللہ تعالى اس كے ساتھ غلطيوں كو مٹاتا ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 528 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 667 ).
پنجم:
نماز دين كى گم ہونے والى آخرى چيز ہے، اگر يہ ضائع ہو جائے تو سارا دين ہى ضائع ہو جاتا ہے…
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آدمى اور شرك و كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
اس ليے مسلمان كو چاہيےكہ وہ نماز اس كے اوقات ميں ادا كرنے كى حرص ركھے، اور نماز سے سستى اور كاہلى نہ كرے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
ان نمازيوں كے ہلاكت ہے جو نماز سے سستى كرتے ہيں الماعون
اور اللہ تعالى نے نماز ضائع كرنے والے كو وعيد سناتے ہوئے فرمايا:
تو ان كے بعد ايسے ناخلف پيدا ہوئے جنہوں نے نماز ضائع كر دى اور شہوات كے پيچھے چل نكلے، عنقريب انہيں جہنم ميں ڈالا جائے گا.
ششم:
روز قيامت نماز كے بارہ ميں سب سے پہلے حساب ہو گا….
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" روز قيامت بندے كے اعمال ميں سے سب سے پہلے اس كى نماز كا حساب و كتاب ہو گا، اگر تو صحيح ہوئى تو وہ كامياب و كامران ہے، اور اس نے نجات حاصل كر لى، اور اگر يہ فاسد ہوئى تو وہ ناكام اور خائب و خاسر ہو گا، اور اگر اس كے فرضوں ميں كچھ كمى ہوئى تو رب ذوالجلال فرمائے گا ديكھو كيا ميرے بندے كے نوافل ہيں، تو فرضوں كى كمى ان نوافل سے پورى كى جائيگى، پھر اس پر سارے عمل اس پر ہونگے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 465 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 413 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2573 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اپنے ذكر و شكر كرنے اور اپنى بہتر عبادت كرنے ميں ہمارى مدد فرمائے.
مراجع:
كتاب الصلاۃ ڈاكٹر طيار صفحہ نمبر ( 16 ) توضيح الاحكام الصيام ( 1 / 371 ) تاريخ مشروعيۃ الصلاۃ للبوشى صفحہ نمبر ( 31 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب