خوشبو دار دھونی جس طرح روزے کی حالت میں اندر کھینچنا منع ہے تو کیا نماز کی حالت میں کوئی نمازی عمداً اسے اندر لے جائے تو کیا یہ نماز پر بھی اثر انداز ہو گی؟
روزے اور نماز کے دوران خوشبو دار دھواں اندر کھینچنے کا حکم
سوال: 337521
Table Of Contents
اول: روزے کی حالت میں خوشبو دار دھونی اندر کھینچنا منع ہے۔
روزے کی حالت میں دھونی اندر لے جانا منع ہے محض اس کی خوشبو سونگھنا منع نہیں ہے؛ کیونکہ دھونی میں ذرات پائے جاتے ہیں اور جب یہ پیٹ میں چلے جائیں گے تو ان سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
جیسے کہ "حاشية الدسوقي" (1/525) میں ہے کہ:
"خوشبو دار دھونی کا دھواں، یا ہنڈیا کی بھانپ حلق تک پہنچ جائے تو قضا واجب ہو جائے گی۔۔۔
اور اگر یہ چیزیں سانس اندر کھینچنے کی وجہ سے کھانا یا دھونی بنانے والے کے یا کسی اور کے حلق تک اس کے اختیار کے بغیر پہنچ جائیں تو معتمد موقف کے مطابق کسی پر بھی قضا نہیں ہے نہ بنانے والے پر اور نہ ہی کسی اور پر" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا رمضان میں دن کے وقت عود یا اسی جیسی کوئی خوشبو استعمال کی جا سکتی ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں استعمال کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ خوشبو دار دھونی کا دھواں اندر نہ لے کر جائے۔" ختم شد
"فتاوى ابن باز" (15/267)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھی پوچھا گیا:
رمضان میں دن کے وقت عطر وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"رمضان میں دن کے وقت انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم خوشبو دار دھوئیں کو سانس کے ذریعے اندر مت لے کر جائے؛ کیونکہ دھوئیں میں ذرات ہوتے ہیں جو کہ معدے میں جاتے ہیں۔" ختم شد
"فتاوى رمضان" (ص 499)
دوم: نماز پڑھنے والا شخص خوشبو دار دھواں اور عطر سونگھ سکتا ہے۔
نمازی کے لیے خوشبو دار دھوئیں اور عطر سونگھنے پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ مسلمان ہمیشہ سے مسجد میں خوشبو دار دھواں کرتے آئے ہیں اور مساجد کو معطر رکھتے ہیں۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (2/ 372) میں ہے کہ:
"جمعرات کے دن مسجد میں جھاڑو لگانا، اور کچرا وغیرہ نکال کر خوشبو لگانا مستحب ہے، نیز جمعہ اور عید کے دن خوشبو دار دھونی کرنا بھی مستحب ہے۔" ختم شد
جبکہ یہ صورت تو تصور میں بھی نہیں آ سکتی کہ کوئی نماز کے دوران دھونی دان ہاتھ میں پکڑ کر اس سے خوشبو سونگھے، کسی فقیہ کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہو، نہ ہی انہوں نے ایسا واقعہ رونما ہونے پر اس کا حکم واضح کیا ہے۔
لیکن اہل علم نے اتنی وضاحت کی ہے کہ اگر سلگتا ہوا انگارا یا دھونی دان نمازیوں کے آگے رکھ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز یہ آگ کو قبلہ رخ رکھنے کی کراہت میں بھی شامل نہیں ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
مسجد میں دھونی دان کو نمازیوں کے آگے رکھنے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز یہ آگ کو قبلہ رخ رکھنے میں بھی شامل نہیں ہو گا؛ کیونکہ جن اہل علم نے آگ کو قبلہ رخ رکھنے کو مکروہ کہا ہے انہوں نے اس کے مکروہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مجوسی اپنی عبادت کے دوران آگ سامنے رکھتے ہیں، تو مجوسی اس انداز سے آگ اپنے سامنے نہیں رکھتے، اس لیے دھونی دان نمازیوں کے آگے رکھا جا سکتا ہے، اسی طرح نمازیوں کے آگے بجلی کے ہیٹر رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ خصوصاً اس صورت میں تو بالکل بھی نہیں ہے کہ جب ہیٹر مقتدیوں کے سامنے ہوں امام کے سامنے نہ ہو۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن عثیمین: (12/ 409)
اسی طرح شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نمازیوں کے آگے دھونی دان رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ان میں سلگتے ہوئے کوئلے کیوں نہ ہوں، کیونکہ نمازیوں کے آگے بھڑکتی ہوئی آگ صفوں کے سامنے رکھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ شعلوں والی آگ کی مجوسی عبادت کرتے ہیں، تو ایسی آگ کو نمازی کے سامنے رکھنا مکروہ عمل ہو گا اور یہی ممانعت کا سبب بھی ہے۔
اور یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ شعلوں والا دھونی دان آگ نہیں کہلاتا، نہ ہی وہ مجوسیوں کی عبادت کے انداز میں رکھا ہوتا ہے۔
نیز دھونی دان میں خوشبو جلانے سے مسجد میں خوشبو پیدا ہوتی ہے اور یہ ایک اچھی چیز ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ثابت ہے کہ آپ نے ایک بار خلوق نامی خوشبو منگوائی اور مسجد کو اس کے ذریعے معطر فرمایا، نیز سلف صالحین بھی مسجد کو عطر اور دھونی کے ذریعے خوشبو لگایا کرتے تھے۔۔۔"
ماخوذ از: شیخ ابن جبرین ویب سائٹ:
http://cms.ibn-jebreen.com/fatwa/home/view/7158
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب