امام كے پيچھے نماز پڑھنے والى عورتوں كى صف كے آگے سے ايك بہن گزر گئى، صف ميں عورتيں كم تھيں، وہ بہت تيز گزرى حتى كہ ہم اسے روك ہى نہ سكيں اور جا كر صف ميں اپنى جگہ كھڑى ہو گئى.
مجھے علم ہے كہ اگر دوران نماز انسان كے آگے سے عورت، يا كتا، يا گدھا گزر جائے تو اس كى نماز ٹوٹ جاتى ہے، چنانچہ ہم كس طرح دوبارہ نماز شروع كريں اور امام كے ساتھ نماز ميں مل جائيں ؟
ہم نماز باجماعت ادا كر رہے تھے كہ ہمارى صفوں كے درميان سے ايك عورت گزر گئى
سوال: 3404
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رہا يہ مسئلہ كہ عورت، گدھا، اور كتے كے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتى ہے يہ صحيح ہے.
عبد اللہ بن صامت ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى نماز ادا كر رہا ہو اور اس كے سامنے كجاوے كى ٹيك جتنا سترہ ہو تو يہ اس كا سترہ بن جائيگا، اور اگر اس كے سامنے كجاوے كى ٹيك جتنا سترہ نہ ہو تو گدھا، اور عورت، اور سياہ كتا اس كى نماز توڑ دے گا, عبد اللہ كہتے ہيں ميں نے عرض كيا:
اے ابو ذر زرد، اور سرخ كتے سے سياہ كتے كا معاملہ كيا ہے ؟
انہوں نے جواب ديا: ميرے بھتيجے: ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اسى طرح سوال كيا تھا جس طرح تو نے مجھ سے كيا ہے، تو انہوں نے فرمايا:
" سياہ كتا شيطان ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 510 ).
كجاوے كى ٹيك تقريبا ايك ہاتھ يا ہاتھ كا جو ثلث حصہ ہے.
ليكن يہ حكم امام يا انفرادى طور پر نماز ادا كرنے والے كے آگے سے گزرنے كے ساتھ خاصل ہے، نہ كہ جب مقتدى امام كے پيچھے نماز ادا كر رہے ہوں، اور كوئى صفوں كے درميان سے گزر جائے، جيسا كہ سوال كرنے والى بہن كا گمان ہے.
اس كى دليل يہ ہے كہ عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" ميں گدھے پر سوار ہو كر آيا اور ان دنوں ميں قريب بلوغت تھا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منى ميں لوگوں كو ديوار كے بغير نماز پڑھا رہے تھے، چنانچہ ميں صف كا بعض حصہ گزرنے كے بعد گدھے سے اترا اور گدھى كو چرنے كے ليے چھوڑ كر صف ميں داخل ہو گيا، اور مجھ پر كسى نے بھى انكار نہ كيا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 471 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 504 ).
اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ تعالى باب كا عنوان باندھتے ہوئے كہتے ہيں: " امام كا سترہ اس كے پچھلوں والوں كا بھى سترہ ہے "
اس مقصود كى دلالت واضح ہے، وہ يہ كہ مقتدى كے ليے سترہ ركھنا ضرورى نہيں، اس ليے اس كے آگے سے جو كچھ گزرے اسے كوئى سروكار نہيں اور خاص كر ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما تو گدھى پر سوار ہو كر گزرے جو كہ اگر امام يا پھر مفرد شخص كے آگے سے گزرے تو نماز توڑنے والى اشياء ميں سے ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ـ يعنى بخارى اور مسلم كى ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى سے روايت كردہ روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب تم ميں سے كوئى نماز ادا كر رہا ہو تو وہ اپنے آگے سے كسى كو گزرنے نہ دے، بلكہ وہ حسب استطاعت اسے روكے، اگر وہ انكار كرے تو اسے اس كے ساتھ جھگڑنا چاہيے، كيونكہ وہ شيطان ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 487 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 505 ) ـ اس حديث ميں اگر نمازى اكيلا بغير سترہ كے نماز ادا كر رہا ہو تو اس كے آگے سے گزرنے كى كراہيت پائى جاتى ہے، اور اسى طرح اگر امام بھى سترہ كے بغير نماز ادا كر رہا ہو تو اس كا بھى حكم يہى ہے.
ليكن مقتدى كے متعلق يہ ہے كہ: اگر اس كے آگے سے كوئى گزر جائے تو اسے كوئى نقصاي نہيں، جيسا كہ اگر كوئى امام كے سترہ كے آگے يا انفرادى طور پر نماز ادا كرنے والے اكيلے شخص كے آگے سے گزر جائے تو اسے كوئى نقصان نہيں، كيونكہ امام كا سترہ مقتديوں كے ليے بھى سترہ ہے.
ہم نے يہ امام اور منفرد كے ليے اس ليے كہا ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تم ميں سے كوئى نماز ادا كر رہا ہو "
اہل علم كے ہاں اس كا معنى يہ ہے كہ: وہ اكيلا نماز ادا كر رہا ہو، اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے، اس ليے ہم نے كہا ہے كہ مقتدى كو حق حاصل نہيں كہ وہ اپنے آگے سے گزرنے والے كو روكے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" ميں گدھى پر سوار ہو كر آيا اور ان دنوں ميں بلوغت كے قريب تھا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منى ميں لوگوں كو نماز پڑھا رہے تھے، چنانچہ ميں صف كے كچھ حصہ سے گزرا اور پھر اتر كر گدھى چرنے كے ليے چھوڑ كر صف ميں داخل ہو گيا، تو كسى نے بھى مجھ پر انكار نہ كيا "
ديكھيں: التمھيد ( 4 / 187 ).
اس بنا پر سوال كرنے والى بہن وغيرہ اگر وہ امام كے پيچھے نماز ادا كر رہى ہو تو اپنے سامنے سے گزرنے والے كو روكنے كا حق نہيں، اور آگے سے گزرنے والے پر بھى كوئى حرج نہيں اگر وہ كسى ضرورت كى بنا پر گزرے، بلكہ آگے سے گزرنے والے كو روكنا اور منع تو امام اور منفرد شخص اور اس كے سترہ كے آگے سے گزرنے والے كے ليے ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد