ايك عورت كا كہنا ہے كہ وہ سعودى عرب ميں ملازمت كرتى ہے، اور پچھلے برس حج كے ليے گئى تو اس كے اس كى دو سہيلياں تھيں اور ان كے ساتھ كوئى محرم نہ تھا، اس كے بارہ ميں كيا شرعى موقف كيا ہے ؟
عورت كا عورتوں ميں گروپ كے ساتھ محرم كے بغير حج كرنا
سوال: 34380
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ عمل يعنى محرم كے بغير عورت كا حج كرنا حرام ہے كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" محرم كے بغير كوئى عورت سفر نہ كرے، تو ايك شخص اٹھ كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى بيوى حج پر جا رہى ہے اور ميں نے فلاں غزوہ ميں نام لكھوا ركھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جاؤ جا كر اپنى بيوى كے ساتھ حج كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3006 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1341 ).
لہذا عورت كے ليے بغير محرم كے سفر كرنا جائز نہيں اور محرم وہ ہوگا جو عورت كے ليے نسب يا كسى مباح سبب كى بنا پر ابدى طور پر حرام ہو، اور اس كے ليے عاقل و بالغ ہونا شرط ہے، ليكن چھوٹا بچہ محرم نہيں بن سكتا، اور اسى طرح بےوقوف يعنى جسے عقل نہ ہو وہ بھى محرم نہيں بن سكتا.
سفر ميں عورت كے ساتھ محرم كے ہونے ميں حكمت يہ ہے كہ عورت كى عزت و عصمت اور عفت محفوظ رہے، تا كہ خواہش كى پجارى اور اللہ كا ڈر نہ ركھنے اور اللہ كے بندوں پر بےرحمى كرنے والے قسم كے لوگ عورت سے كھلواڑ نہ كر سكيں.
اس سے كوئى فرق نہيں پڑتا كہ عورت اكيلى ہو يا اس كے ساتھ دوسرى عورتيں بھى ہوں، يا پھر وہ امن والى ہو يا امن ميں نہ ہو، حتى كہ چاہے وہ اپنےخاندان اور گھروالى عورتوں كے ساتھ ہى جائے اور اسے انتہائى امن كى اميد بھى ہو تو بھى اس كے ليے بغير محرم سفر كرنا جائز نہيں.
كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص كو اپنى بيوى كے ساتھ حج كرنےكا كہاتو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس شخص سے يہ دريافت نہيں فرمايا كہ آيا اسكے ساتھ دوسرى عورتيں ہيں، اور كيا وہ پرامن يا ہے نہيں، اس ليے جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے بارہ ميں اس شخص سے استفسار نہيں فرمايا تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس ميں كوئى فرق نہيں، اور يہى صحيح ہے كہ عورت بغير محرم كے سفر نہيں كر سكتى.
وقت حاضر ميں بعض لوگوں نے تساہل سے كام ليتے ہوئے ہوائى جہاز ميں بغير عورت كا سفر جائز قرار دے ديا ہے جو كہ بلاشك و شبہ عمومى اور ظاہرى نصوص كے خلاف ہے، كيونكہ ہوائى جہاز كا سفر بھى دوسرے ذريعہ سے سفر كى طرح ہے يہ خطرات سے خالى نہيں.
اگر محرم عورت كو ائرپورٹ كے لاؤنج تك چھوڑ آئے تو وہ ويٹنگ ہال ميں داخل ہو كراكيلى رہ جائيگى اور اسكے ساتھ كوئى محرم نہيں ہوگا، ہو سكتا ہے ہوائى جہاز وقت مقررہ پر اڑ جائے، ليكن يہ بھى ہو سكتا ہے كہ فلائٹ ميں تاخير ہو جائے.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وقت مقررہ پر فلائٹ اڑان بھرے ليكن كسى فنى خرابى يا كسى اور سبب كے باعث اسے واپس آنا پڑے، يا پھر جہاں فلائٹ جا رہى تھى اس ائرپورٹ كى بجائے كسى دوسرے ائرپورٹ پر اتر جائے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے فلائٹ كسى سبب كے باعث تاخير سے پہنچے.
اور اگر بالفرض وقت مقررہ پر بھى پہنچ جائے تو ہو سكتا ہے اسے لينے كے ليے آنے والا محرم شخص كسى سبب كے باعث وہاں نہ پہنچ سكا ہو، اس كى گاڑى خراب ہو سكتى ہے يا پھر وہ سويا رہ سكتا ہے، يا پھر رش كى بنا پر تاخير ہو سكتى ہے.
پھر اگر يہ بھى فرض كريں كہ اسے لينے كے ليے آنے والا محرم شخص وقت مقررہ پر بھى پہنچ گيا ہو ليكن اس كے ساتھ فلائٹ ميں كوئى شخص ايسا ہو جو اسے دھوكہ دے اور وہ دونوں ايك دوسرے كو چاہنے لگيں اور ؟.؟
حاصل يہ ہوا كہ عورت كو اللہ سبحانہ و تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرتے ہوئے حج وغيرہ يا كوئى بھى سفر بغير محرم كے نہيں كرنا چاہيے، اور محرم كے ليے بالغ اور عاقل ہونا شرط ہے، اللہ ہى مددگار ہے " انتہى .
ماخذ:
ماجوذ از: كتاب: دليل الاخطاء التى يقع فيھا الحاج و المعتمر