0 / 0

اگر امام جلسہ استراحت نہ بيٹھے تو كيا مقتدى جلسہ استراحت ميں بيٹھے گا ؟

سوال: 34458

ہم اسے اماموں كے پيچھے نماز ادا كرتے ہيں جو جلسہ استراحت نہيں كرتے، حتى كہ اگر آپ انہيں جلسہ استراحت كرنے والى كتابيں لا كر بھى ديں تو پھر بھى نہيں كرتے.

كيا جب ميں ان كے پيچھے نماز ادا كروں تو ان كے جلسہ استراحت نہ كرنے كے باوجود ميں جلسہ استراحت كروں يا كہ نہ كرنے ميں بھى امام كى متابعت كروں؟

يہ علم ميں ركھيں كہ ايسا كرنے سے ميں بھى جلسہ استراحت نہيں كرونگا جيسا كہ وہ نہيں كرتے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جلسہ استراحت نماز كى سنتوں ميں شامل ہے، اس كا جواب سوال نمبر ( 21985 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مقتدى كو امام كى متابعت كرنے كا حكم ديا ہے.

امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے گھر ميں بيمارى كى حالت ميں نماز پڑھى تو بيٹھ كر نماز ادا كى، اور آپ كے پيچھے لوگوں نے كھڑے ہو كر نماز ادا كى، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بيٹھنے كا اشارہ كيا، اور جب نماز مكمل كى تو فرمانے لگے:

” امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى متابعت اور اقتدا كى جائے، جب وہ ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب وہ اٹھائے تو تم بھى اٹھاؤ، اور جب بيٹھ كر نماز ادا كرے تو تم بھى بيٹھ كر نماز ادا كرو”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 688 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 412 ).

اور متابعت كا معنى يہ ہے كہ: امام كے افعال شروع كرنے كے فورا بعد مقتدى بھى وہ فعل كرے. مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 33790 ) كا جواب ديكھيں.

ديكھيں: حاشيۃ ابن قاسم ( 2 / 285 ) الشرح الممتع ( 4 / 269 ).

سوم:

اگر امام جلسہ استراحت ميں نہيں بيٹھتا تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا مقتدى بھى جلسہ استراحت كرے يا نہ كرے ؟

اس مسئلہ ميں سبب اختلاف يہ ہے كہ: آيا مقتدى كا اس حالت ميں جلسہ استراحت كرنا امام كى متابعت كے منافى ہے يا نہيں ؟ جس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے.

بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ چاہے امام جلسہ استراحت نہ بھى كرے تو مقتدى كو جلسہ استراحت كرنا چاہيے، اور اس حالت ميں امام سے تھوڑا سا پيچھے رہنا كوئى نقصان دہ نہيں، اور پھر يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل بھى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر امام جلسہ استراحت نہ كرے تو مقتدى كو كرنا چاہيے، ہمارے اصحاب ( يعنى شافعيہ ) كہتے ہيں: كيونكہ اس ميں تھوڑى سى مخالفت ہے. اھـ

ديكھيں: المجموع ( 4 / 240 ).

اور بعض دوسرے علماء كرام كا كہنا ہے كہ مقتدى جلسہ استراحت ميں نہ بيٹھے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے سوال دريافت كيا گيا جيسا كہ ” الفتاوى الكبرى ميں ہے:

ايك شخص مقتدى بن كر نماز ادا كرتا اور ركعات كے مابين جلسہ استراحت كرتا ہے، ليكن امام نہيں كرتا تو كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

صحيح بخارى ميں ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جلسہ استراحت كے ليے بيٹھے، ليكن علماء كرام نے تردد كيا ہے كہ آيا يہ زيادہ عمر ہوجانے كے باعث بطور ضرورت كيا تھا يا كہ يہ نماز كى سنت ميں شامل ہے ؟

جو علماء اسے نماز كى سنت قرار ديتے ہيں انہوں نے اسے مستحب قرار ديا ہے، جيسا كہ امام شافعى، اور امام احمد كى ايك روايت ميں ہے، اور جنہوں نے پہلا قول ليا ہے وہ اسے ضرورت كے وقت مستحب قرار ديتے ہيں جيسا كہ امام ابو حنيفہ، امام احمد كى دوسرى روايت، اور امام مالك كا قول ہے.

جلسہ استراحت كو مستحب كہنے والوں كے ہاں جلسہ استراحت كرنے والے پر كوئى عيب نہيں لگايا جائيگا چاہے وہ مقتدى ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ وہ تھوڑى سى مقدار ميں امام سے پيچھے رہا اور يہ ممنوع كردہ پيچھے رہنے ميں شامل نہيں ہوتا.

اور كيا يہ فعل محل اجتھاد ميں ہے ؟ كيونكہ اس كے نزديك يہ مسنون فعل اور فعل ميں امام كى موافقت ميں جلدى كرنے كے معارض ہے، تو يہ پيچھے رہنے سے اولى ہے، ليكن يہ پيچھے رہنا بہت تھوڑا ہے، تو يہ بالكل اسى طرح ہوا جيسا كہ مقتدى كے تشھد مكمل كرنے سے قبل امام كھڑا ہو جائے اور مقتدى اسے مستحب سمجھتا ہے.

يا پھر اس طرح ہے كہ امام سلام پھير لے اور مقتدى كى كچھ دعا باقى ہو تو كيا مقتدى بھى سلام پھير دے يا دعاء مكمل كرے ؟

اس طرح كے مسائل اجتھادى ہيں، اور زيادہ قوى يہ ہے كہ كسى مستحب فعل كے ليے امام سے پيچھے رہنے سے امام كى متابعت كرنا زيادہ اولى ہے. واللہ اعلم اھـ

ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 1 / 135 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى ” الشرح الممتع ” ميں كہتے ہيں:

مسئلہ:

اگر انسان مقتدى ہو اور وہ اس جلسہ كو سنت سمجھے تو كيا اس كے ليے جلسہ استراحت كے ليے بيٹھنا مسنون ہے يا كہ امام كى متابعت كرنا افضل ہے ؟

جواب:

امام كى متابعت كرنا افضل ہے، اسى ليے وہ واجب ” تشھد اول ” كو ترك كرتا ہے، اور زائد كو كرتا ہے، جيسا كہ اگر مقتدى دوسرى ركعت ميں امام كے ساتھ ملے تو وہ امام كى متابعت كے ليے پہلى ركعت ميں زائد تشھد بيٹھےگا، بلكہ امام كى متابعت كى بنا پر ركن بھى چھوڑے گا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جب امام بيٹھ كر نماز ادا كرے تو تم بھى بيٹھ كر ادا كرو ”

تو وہ ركن قيام اور ركن ركوع ترك كر دے گا اور قيام كى بجائے بيٹھے گا، ركوع كى جگہ اشارہ كرےگا، يہ سب كچھ امام كى متابعت اور پيروى كى وجہ سے ہے.

اگر كوئى قائل كہے كہ:

اس چھوٹے سے جلسہ استراحت سے امام سے پيچھے رہنا نہيں ہے.

اس كا جواب يہ ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” جب ركوع كرے تو تم ركوع كرو، اور جب سجدہ كرے تو تم سجدہ كرو، اور جب تكبير كہے تو تم تكبير كہو ”

يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاء كا استعمال كيا ہے جو ترتيب اور بغير كسى مہلت كے تعقيب پر دلالت كرتى ہے، جو اس بات كى دليل ہے كہ مقتدى كے حق ميں افضل يہ ہے كہ وہ امام سے تھوڑى سى بھى تاخير نہ كرے، بلكہ متابعت كرنے ميں جلدى كرے، نہ تو امام كى موافقت كرے، اور نہ ہى اس سے سبقت لے جائے، اور نہ ہى تاخير كرے، اقتدا اور پيروى كى حقيقت يہى ہے. اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 192 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android