ہمارے ہاں ايك مسجد ہے جو ايك خيراتى ادارے نے ايك شخص سے خريدى گئى زمين پر تعمير كى ہے، يہاں مشكل يہ ہے كہ كچھ بڑى عمر كے لوگ كہتے ہيں كہ يہ زمين جس پر مسجد تعمير كى گئى ہے وہ كسى اور مسجد كے ليے وقف تھى.
ہم چاہتے ہيں كہ آپ كو مندرجہ ذيل اشياء بتا ديں:
1 – جس شخص نے ادارے كو زمين فروخت كى ہے اس كے پاس عدالت كى جانب سے تصديق يافتہ مكمل كاغذات ہيں.
2 – جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ يہ زمين ان كى مسجد كے ليے وقف ہے اب تك انہوں نے زمين لينے كا مطالبہ نہيں كيا، يہ علم ميں ركھيں كہ مسجد كو بنے ايك برس سےزيادہ ہو گيا ہے.
3 – ان بڑى عمر كے لوگوں كے پاس كوئى كاغذات نہيں جو يہ ثابت كرتے ہوں كہ يہ زمين مسجد كے ليے وقف تھى.
4 – جس خيراتى ادارے نے مسجد تعمير كى ہے وہ نئے سرے سے اس زمين كوخريدنے پر تيار ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ جب عدالت كى جانب سے يہ ثابت ہو جائے كہ يہ زمين مسجد كے ليے وقف تھى.
5 – اس زمين پر جو مسجد تعمير ہوئى ہے وہ جامع مسجد ہے، اور اس بستى ميں صرف ايك مسجد اور ہے جو صوفى فكر ركھنے والوں كى ہے، اور بدعات سے بھرى ہوئى ہے، اور وہاں جمعہ بھى نہيں پڑھايا جاتا.
6 – يہ مسجد اللہ تعالى كے ليے تعمير كى گئى ہے، اور الحمد للہ سنت نبويہ پر قائم ہے.
يہاں سوال يہ ہے كہ:
كيا اس مسجد ميں نماز ادا كرنا جائز ہے؟
اور ان لوگوں كے متعلق جو لوگوں كواس مسجد ميں نماز ادا كرنے سے منع كرتے ہيں، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ يہ ايسى زمين پر بنائى گئى ہے جو مشتبہ ہے، ان كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے، ہميں معلومات فراہم كريں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
مسجد كے متعلق مشكل يہ ہے كہ گمان كيا جاتا ہے كہ يہ ايسى جگہ پر بنائى گئى ہے جو كسى اور مسجد كے ليے وقف كى گئى تھى
سوال: 34504
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس مسجد ميں نماز ادا كرنا صحيح ہے، اور ان بڑى عمر كے لوگوں كى كلام كى طرف بغير كسى دليل كے متوجہ نہ ہوں، آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے اس بنا پر تو يہ ثابت ہوتا ہے كہ جس نے تمہيں زمين فروخت كى ہے اس كے پاس كاغذات سب سے بڑى دليل ہے كہ وہ ہى اس زمين كا مالك ہے اور يہ زمين اس كى ملكيت تھى، ليكن اگر اس كے خلاف كچھ اور ثابت ہو تو پھر اور بات ہے.
تو اس بنا پر ان بوڑھوں كى بات كو كچھ اہميت نہيں دى جائے گى، اور خاص جب وہ اس زمين كے وقف پر قائم ہيں اور ابھى تك انہوں نے اس كا مطالبہ بھى نہيں كيا.
لھذا آپ اس مسجد ميں نمازيں ادا كريں، اور بغير كسى شرعى دليل كے كى جانے والى كلام كى طرف دھيان نہ ديں، اور جو اس مسجد ميں نماز ادا كرنے سے منع كرتا ہے اسے اپنے رب اللہ تعالى سے ڈرنا چاہيے، اور كسى دوسرے كى كلام نہ كرتا پھر جبكہ وہ كلام حقائق اور دلائل كے بھى خلاف ہے، اسے چاہيے كہ وہ اپنى كلام كو شرعى دلائل كے ساتھ ثابت كرے، وگرنہ اس كے ليے اس مسجد ميں نماز ادا نہ كرنا حلال نہيں، چہ جائيكہ وہ دوسروں كو بھى اس ميں نماز ادا كرنےسے روكے اور انہيں متنفر كرتا پھرے.
اور سوال ميں آپ كا يہ كہنا كہ: ( اگر يہ ثابت ہو جائے كہ زمين وقف تھى تو خيراتى ادارہ نئے سرے سے زمين خريدنے پر تيار ہے )
تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ وقف كو فروخت كرنا ہى جائز نہيں، ليكن اگر يہ مسجد جس پر وہ زمين وقف ہے اس زمين سے مستغنى ہے اور اسے اس زمين كى ضرورت نہيں تو يہ زمين اسے دينى جائز ہے جو وہاں مسجد تعمير كرے، اور يہ بالفعل ہو چكا ہے، يہ اس وقت ہے جب يہ ثابت ہو كہ يہ زمين وقف ہے.
اللہ تعالى آپ كو اپنى رضا اور خوشنودى كے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے، اور ہمارے اور آپ كے اعمال صالحہ قبول فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب