0 / 0
15,37306/02/2010

كيا تشھد ميں ” السلام عليك ايہا النبى ” پڑھا جائيگا يا كہ ” السلام على النبى ” ؟

سوال: 34535

كيا يہ صحيح ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے بعد اگر كوئى شخص تشھد ميں ” السلام عليك ايہاالنبى ” كہتا ہے تو اس سے شرك كا خدشہ ہے، اور ہميں اس كى بجائے ” السلام على النبى ” كہنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

1 – ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

” ميرى ہتھيلى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى دونوں ہتھيليوں كے درميان تھى تو آپ نے مجھے تشھد اس طرح سكھائى جس طرح قرآن كى كوئى سورۃ سكھائى جاتى ہے:

” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ”

سب درود اور وظيفے اللہ ہى كے ليے ہيں، اور سب عجز و نياز اور سب صدقے خيرات بھى اللہ ہى كے ليے ہيں، اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ پر سلام اور اللہ كى رحمت اور اس كى بركتيں ہوں، سلام ہو ہم پر اور اللہ كے نيك و صالح بندوں پر، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں ”

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے اندر تھے، اور جب فوت ہو گئے تو ہم يہ كہنے لگے: السلام على النبى صلى اللہ عليہ وسلم .

چنانچہ بہت سے لوگ يہ آخرى الفاظ كہتے ہيں، اور دوسروں كو بھى يہى كہنے كا حكم ديتے ہيں، كيا ايسا كرنا صحيح ہے ؟

مستقل كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

” تشھد كا طريقہ جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى نماز ميں پڑھا كرتے تھے اور اپنے صحابہ كرام كا اس كا حكم ديا تھا وہ يہ ہے جو صحيح بخارى اور صحيح مسلم شريف ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ميں موجود ہے:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

” ميرى ہتھيلى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى دونوں ہتھيليوں كے درميان تھى تو آپ نے مجھے تشھد اس طرح سكھائى جس طرح قرآن كى كوئى سورۃ سكھائى جاتى ہے:

” التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ”

سب درود اور وظيفے اللہ ہى كے ليے ہيں، اور سب عجز و نياز اور سب صدقے خيرات بھى اللہ ہى كے ليے ہيں، اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ پر سلام اور اللہ كى رحمت اور اس كى بركتيں ہوں، سلام ہو ہم پر اور اللہ كے نيك و صالح بندوں پر، ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے سوا كوئى معبود برحق نہيں، اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اس كے بندے اور رسول ہيں ”

يہ سب سے صحيح طريقہ ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ سلم نے اپنے صحابہ كرام كو يہى سكھايا، اور يہ نہيں فرمايا كہ:

” اگر ميں فوت ہو جاؤں تو تم السلام على النبى كہنا … ”

كميٹى كے علماء سے يہ بھى سوال كيا گيا:

كيا تشھد ميں ” السلام عليك ايہاالنبى ” كے الفاظ كہے جائيں، يا كہ ” السلام على النبى ” كيونكہ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل ہم ” السلام عليك ايہاالنبى ” كہا كرتے تھے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد ” السلام على النبى ” كے الفاظ ؟

كميٹى كا جواب تھا:

صحيح يہى ہے كہ نمازى كو تشھد ميں ” السلام عليك ايہاالنبى و رحمۃ اللہ و بركاتہ كہنا چاہيے؛ كيونكہ احاديث سے يہى ثابت ہے.

ليكن جو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے ـ اگر يہ ان سے صحيح ثابت ہو جائے تو پھر ـ يہ ان كا اپنا اجتھاد ہے، اسے صحيح ثابت شدہ احاديث سے معارض نہيں كيا جائيگا، اور اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كى وفات كے بعد اس كا حكم ان كى زندگى سے مختلف ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كو بيان فرما ديتے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 11 – 13 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس مسئلہ كى بہت ہى عظيم الشان توضيح كى ہے، اور ان الفاظ ميں غائب كو پكارنے والے كى نداء كے شبہ كا دعوى كرنے والے كا رد كرتے ہوئے كہا ہے:

قولہ: السلام عليك ”

كيا يہ خبر ہے يا دعاء ؟

يعنى كيا آپ يہ خبر دے رہے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسلم ہيں، يا كہ يہ دعاء كر رہے ہو كہ اللہ تعالى ان پر سلامتى بھيجے ؟

جواب:

يہ دعاء ہے، اور آپ يہ دعاء كر رہے ہيں كہ اللہ تعالى ان پر سلامتى بھيجے، چنانچہ يہ خبر دعاء كے معنى ميں ہے.

پھر كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو خطاب ہے جس طرح عام لوگ ايك دوسرے كو خطاب كرتے ہيں ؟

جواب:

نہيں، كيونكہ اگر ايسا ہو تو اس سے نماز ہى باطل ہو جائيگى؛ كيونكہ نماز ميں كسى بھى آدمى اور شخص سے كلام كرنى صحيح نہيں؛ اور اس ليے بھى كہ اگر واقعتا ايسا ہوتا تو پھر صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين يہ كلمات بلند آواز سے كہتے تا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سن ليتے، اور ان كو سلام كا جواب ديتے، جس طرح ان سے ملاقات كرتے وقت كيا كرتے تھے.

ليكن جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب ” اقتضاء الصراط المستقيم ” ميں كہا ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سلام بھيجتے وقت آپ كا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو استحضار كرنے كى قوت اس طرح ہے گويا كہ آپ انہيں مخاطب كر رہے ہيں.

اسى ليے صحابہ كرام السلام عليك كہا كرتے تھے اور رسول كريم صلى اللہ وسلم سن بھى نہيں رہے تھے، اور وہ السلام عليك كہتے حالانكہ وہ كسى علاقے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دوسرے علاقے ميں ہوتے تھے.

اور ہم السلام عليك كہتے ہيں، حالانكہ ہم آپ كے علاقے كے علاوہ دوسرے علاقے اور ان كے دور كے علاوہ كسى اور دور ميں ہيں.

اور صحيح بخارى ميں جو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے يہ وارد ہے كہ ہم وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد السلام على النبى و رحمۃ اللہ و بركاتہ كہا كرتے تھے، يہ ان كا اجتھاد ہے، جس ميں ان سے زيادہ علم ركھنے والے عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے ان كى مخالفت كى ہے جيسا كہ موطا امام مالك ميں ہے كہ:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كو منبر رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر خطاب كيا اور تشھد ميں يہ الفاظ كہے:

” السلام عليك ايہاالنبى و رحمۃ اللہ ” اس كى سند اصح الاسناد ہے، اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے صحابہ كرام كى موجودگى ميں يہ الفاظ كہے اور صحابہ كرام نے اس كا اقرار كيا اور مخالفت نہيں كى.

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كو بھى يہى سكھايا حتى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو تشھد سكھائى تو ان كا ہاتھ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دونوں ہاتھوں كے درميان تھا، تا كہ وہ يہ الفاظ ياد ركھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشھد انہيں اس طرح سكھايا كرتے تھے جس طرح قرآن مجيد كى كوئى سورۃ سكھائى جاتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم تھا كہ عنقريب انہيں موت آئے گى، اس ليے اللہ تعالى نے آپ كو فرمايا تھا:

يقينا تو بھى مرنے والا ہے اور يہ بھى مرنے والے ہيں الزمر ( 30 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ تم ميرى موت كے بعد ” السلام على النبى ” كہنا، بلكہ انہيں تشھد اس طرح سكھائى جس طرح قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم انہيں الفاظ كے ساتھ دى جاتى ہے، اس ليے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے اجتھاد كى طرف دھيان نہيں ديا جائيگا، بلكہ ” السلام عليك ايہا النبى ” ہى كہا جائيگا.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 150 – 151 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android