اگر ميرا آفيسر يا سپروائزر نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے جانے سے منع كرے تو كيا ميں ملازمت سے استعفى دے دوں يا نہ دوں ؟
آفيسر نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے جانے سے منع كرتا ہے
سوال: 34617
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو آپ كى ملازمت اور كام شہر سے باہر ہے، اور وہاں آپ نماز جمعہ كى اذان نہيں سنتے تو پھر اس صورت ميں آپ پر نماز جمعہ فرض نہيں بلكہ آپ ظہر كى نماز ادا كرينگے.
ليكن اگر شہر كے اندر يا پھر شہر كے باہر ہيں ليكن نماز جمعہ كى اذان سنتے ہيں تو پھر آپ كو نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے حاضر ہونا واجب ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے بعض ان ملازمين كے متعلق دريافت كيا گيا جن كے كفيل انہيں نماز جمعہ كى ادائيگى كے ليے نہيں جانے ديتے تھے اور دليل يہ پيش كرتے كہ آپ كھيتوں كے چوكيدار ہيں تو ايسے لوگوں كے متعلق كيا حكم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
اگر تو يہ لوگ مسجد سے اتنے دور ہيں كہ انہيں لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان سنائى نہيں ديتى اور وہ شہر كے باہر رہتے ہيں تو پھر ان پر جمعہ كى ادائيگى لازم نہيں، اور ملازمين كو مطمئن رہنا چاہيے كہ ان پر كھيتوں ميں ہى رہنے پر كوئى گناہ نہيں، بلكہ وہ ظہر كى نماز ادا كريں، اور كفيل كو يہ كہا جاتا ہے كہ وہ انہيں اس كى اجازت دے كيونكہ اس ميں كفيل اور ملازمين دونوں كى بہتري ہے. اھـ
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 1 / 413 ).
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
ايك نوجوان بطور خادم كام كرتا ہے، اور مالك اسے مسجد ميں نماز ادا كرنے سے منع كرتا اور اگر وہ مسجد ميں نماز ادا كرے تو مالك اسے زدكوب كرتا اور اسے خروج لگا كر اس كے ملك بھيجنے كى دھمكى ديتا ہے، ايسے شخص كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
نماز پنجگانہ مسجد ميں باجماعت ادا كرنا فرض ہيں، لہذا آپ نمازيں باجماعت مسجد ميں ادا كريں، اور اس ميں صبر و تحمل سے كام ليں اور اجروثواب كى نيت ركھيں، عنقريب اللہ تعالى تنگى كے بعد آسانى پيدا فرمائے گا:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرے گا اللہ تعالى اسے كافى ہو گا، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہے گا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 – 3 ).
اور آپ يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت نہيں ہے، لہذا آپ اللہ كے ساتھ ہوں اللہ آپ كے ساتھ ہو گا. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 302 ).
اس بنا پر ہم سائل كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى ملازمت كے آفيسر اور سپر وائزر كے ساتھ مفاہمت سے كام لے، اور اسے حالات سے آگاہ كرے، اور آپ اس سے وعدہ كريں كہ نماز جمعہ ميں جو وقت صرف ہو گا اتنا وقت آپ كام كريں گے، اگر تو وہ قبول كر لے تو بہتر وگرنہ آپ كے ليے ايسے كام ميں كوئى بہترى اور بھلائى نہيں جو آپ كو نماز سے روكے، اور پھر جو شخص بھى اللہ تعالى كے ليے كسى چيز كو ترك كرتا ہے، اللہ تعالى اسے اس كے عوض ميں بہتر چيز عطا فرماتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب