ایک عورت نے خلع لینے کا فیصلہ کیا اور وہ چاہتی تھی ایسی طلاق لے جس میں خاوند کی طرف سے ملنے والا قیمتی سامان واپس کر دے، چنانچہ خاوند نے طلاق دینے پر رضا مندی کا اظہار کیا اور اسے طلاق دے دی، لیکن اس نے کسی بھی چیز کو واپس لینے سے انکار کر دیا، اب اس عورت کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا اگر خاوند مہر وغیرہ واپس لینے سے انکار کر دیتا ہے تو کیا طلاق صحیح ہو گی؟ کیا یہ چیزیں عورت خیراتی اداروں میں دے سکتی ہے؟
بیوی نے خلع طلب کیا تو خاوند طلاق دے دی اور مہر وصول کرنے سے انکار کر دیا، تو کیا طلاق صحیح ہو گی؟ نیز طلاق اور خلع میں کیا فرق ہے؟
سوال: 348008
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر تو میاں اور بیوی کے درمیاں جدائی لفظ طلاق کے ساتھ ہوئی ہے خلع کے لفظ سے نہیں ہوئی ، اور ساتھ میں جدائی کے عوض مہر یا مال وغیرہ بھی واپس کرنے کا کہا گیا ہو تو یہ طلاق بائنہ ہے، اور اگر اس میں کسی قسم کے عوض کا مطالبہ نہیں کیا گیا تو یہ پہلی یا دوسری طلاق کی صورت میں طلاق رجعی ہے۔
طلاق کی عدت تین حیض ایسی خواتین کے لیے ہیں جن کو حیض آتا ہے، چنانچہ اگر عدت رجوع کے بغیر ہی ختم ہو جائے تو دونوں میں جدائی ہو جائے گی، اور اگر واپس اسی خاوند کے عقد میں آنا چاہے تو پھر نیا نکاح ضروری ہو گا۔
دوم:
اگر میاں بیوی کے درمیان خلع کے لفظ سے جدائی ہو اور خاوند کوئی عوض وصول نہ کرے تو کیا یہ خلع صحیح ہو گا؟
اس بارے میں اہل علم کے دو اقوال ہیں:
پہلا قول: بغیر عوض لیے خلع صحیح نہیں ہو سکتا، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے، لہذا اگر وہ طلاق دینے کی نیت سے خلع کا لفظ بولے تو یہ رجعی طلاق ہو گی اور اس کی عدت بھی سابقہ صورت کی طرح تین حیض ہے۔
دوسرا قول: یہ ہے کہ بغیر عوض کے خلع درست ہے، یہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے آپ "حاشية الدسوقي" (2/ 351)، "المغني" (7/ 337) کا مطالعہ کریں۔
خلع اگر صحیح ہو تو اس کی وجہ سے دو چیزیں مرتب ہوتی ہیں:
1- میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جائے گی، اب یہ دونوں نیا نکاح کر کے ہی آپس میں اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
2- راجح موقف کے مطابق اس کی عدت ایک حیض ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی عورت عوض کے بغیر خلع لے ، یا کسی حرام چیز کے عوض خلع لے تو اس کا خلع صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ترجمہ: تو دونوں پر ہی کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت اپنی طرف سے خاوند کو فدیہ دے دے۔[البقرہ: 229] تو اگر کوئی عورت عوض کے بغیر خلع لیتی ہے تو فدیہ کہاں ہے؟ عوض کے بغیر فدیہ نہیں ہوتا، تو حنبلی موقف یہی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: بغیر کسی عوض کے خلع جائز ہے، اس کی شیخ الاسلام نے دو وجوہات ذکر کی ہیں:
پہلی وجہ: عوض خاوند کا حق ہے، چنانچہ اگر خاوند اپنے اختیار سے اپنا حق ساقط کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہو گا جیسے خاوند اپنا کوئی بھی حق ساقط کر دے۔ لہذا اگر دونوں اس بات پر اتفاق کریں کہ 1000 ریال کے عوض خلع ہو گا، پھر خلع ہو گیا، اور اس کے بعد 1000 ریال لینے سے انکار کر دیا تو یہ بھی ٹھیک ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو اسی طرح اگر خاوند شروع میں ہی کہہ دے کہ مجھے عوض نہیں چاہیے تو تب بھی خلع درست ہو گا۔
دوسری وجہ: خلع ہوتا ہی عوض کے بدلے ہے؛ کیونکہ خلع کے بعد خاوند پر بیوی کے اخراجات ختم ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ اگر طلاق ہو تو وہ طلاق رجعی ہو گی، اور عدت پوری ہونے تک خاوند پر بیوی کے اخراجات لازم ہیں، چنانچہ جب خلع ہو گا تو بیوی کے اخراجات کا ذمہ دار خاوند نہیں ہو گا، گویا کہ بیوی اپنے ان اخراجات سے خاوند کو بری الذمہ قرار دیتی ہے، تو اس صورت میں بیوی خاوند پر اپنے حق کو ساقط کر دیتی ہے جو کہ طلاق کے بعد عدت ختم ہونے تک اخراجات کی شکل میں ہوتا ہے، اور خلع کی صورت میں خاوند رجوع کرنے کے حق کو ساقط کرتا ہے؛ کیونکہ رجوع کرنا خاوند کا حق ہے، اور عدت کی مدت میں نفقہ بیوی کا حق ہے، لہذا جب یہ دونوں اپنے اپنے حقوق ساقط کرنے پر راضی ہو جائیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت سے استدلال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ : عام طور پر خاوند بغیر عوض کے نہیں چھوڑا کرتے اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا: فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ترجمہ: تو دونوں پر ہی کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت اپنی طرف سے خاوند کو فدیہ دے دے۔[البقرہ: 229]
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے؛ کیونکہ یہ بھی در حقیقت عوض کے بدلے میں ہی خلع ہے، اور وہ یہاں خاوند سے نفقہ ساقط ہونے کی شکل میں ہے۔"
تو اس سے واضح ہوا کہ طلاق اور خلع میں کیا فرق ہے:
بلا عوض طلاق: پہلی یا دوسری طلاق کی صورت میں یہ رجعی طلاق ہوتی ہے،اور اس کی عدت تین حیض ہے۔
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورت خلع مانگتی ہے لیکن خاوند خلع نہیں دیتا، یا معاوضہ لیے بغیر طلاق دے دیتا ہے، تو اس کی طلاق ٹھیک ہو گی؛ تاہم یہ طلاق رجعی ہو گی، جیسے کہ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
جب کہ خلع فسخ نکاح ہوتا ہے، اور یہ طلاق کے مواقع میں شمار نہیں ہوتا، نیز خلع کے فوری بعد جدائی ہو جاتی ہے، اور اس کی عدت ایک حیض ہے۔
سوم:
اگر خاوند حق مہر اور دیگر تحائف بیوی سے واپس نہیں لیتا تو یہ سب چیزیں بیوی کی ملکیت میں رہیں گی، اور بیوی جو چاہے ان کا کر سکتی ہے، چاہے انہیں محفوظ کر لے، یا کسی کو تحفہ دے دے، یا صدقہ کر دے، یہ اس کی اپنی ملکیت ہے جو مرضی کرے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب