ايك شخص پلاٹ كا مالك ہے جو كہ ايك تجارتى علاقے ميں ہے، اسے فروخت كرنے كا ارادہ نہيں ركھتا، بلكہ وہ مستقبل ميں اسے تعمير كر كے سرمايا كارى كرنا چاہتا ہے، تو كيا اس پلاٹ ميں زكاۃ واجب ہو گى ؟
اگر اراضى تجارت كے ليے نہ ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں
سوال: 34802
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس زمين ميں زكاۃ نہيں، كيونكہ زمين ميں زكاۃ اس وقت واجب ہو گى جب وہ تجارتى بنا پر ركھى جائے، پھر جب آپ اس ميں تعمير كريں اور سرمايہ كارى كريں تو اس سے حاصل ہونے والے مال ميں اس وقت زكاۃ ہو گى جب وہ نصاب كو پہنچے اور اس كو سال مكمل ہو جائے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا مستقبل ميں رہائش تعمير كرنے كے ليے حاصل كردہ زمين ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
جب اس نے تعمير كے ليے ركھى ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں ہے، يا اس نے اس كى اجرت سے فائدہ حاصل كرنے كى غرض سے ركھى ہو تو اس اجرت پر سال گزرنے كے بعد زكاۃ ہو گى. اھـ
اور شيخ كا يہ بھى كہنا تھا:
آپ نے جو زمين رہائش كى يا اجرت كى غرض سے خريدى ہے اس ميں زكاۃ نہيں چاہے وہ كئى برس تك آپ كے پاس رہے، كيونكہ زكاۃ اس زمين ہو گى جو تجارت اور فروخت يا كمائى كے ليے ہو، ليكن وہ زمين جو انسان نے اپنى ضرورت يا اس سے فائدہ حاصل كرنے كے ليے تيار كى ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں جيسا كہ باقى تجارتى سامان كا ہے.
اور اس بنا پر آپ كى اس زمين ميں زكاۃ نہيں ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى منار الاسلام ( 1 / 298 – 299 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب