ميں كوئى عمومى كاتب تو نہيں ليكن لوگ ميرے پاس عرضداشت لكھوانے كے ليے آتے ہيں، جن ميں انى شكايات اور عدالت ميں پيش كرنے كے ليے دعوى جات بھى ہوتے ہيں، جس طرح ايك صاحب حق شخص آپ كے پاس آتا ہے، اسى طرح ايك ظالم بھى لكھانے كے ليے آتا ہے، اور يہ ممكن ہے عدالت سے فائدہ حاصل كرنے كے ليے دونوں ہى غلط باتيں بھى لكھوائيں ميں ايك كاتب ہونے كے ناطے آپ سے سوال كرتا ہوں كہ آيا يہ كام حرام تو نہيں ؟
ظالم اور مظلوم كى جانب سے عدالت كے ليے درخواستيں لكھنا
سوال: 35573
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو آپ لوگوں كى شكايات اور ان كے دعوى پر مشتمل عرضداشت ميں وہى كچھ لكھتے ہيں جو آپ كو لكھانے والا لكھاتا ہے، اور آپ كو علم نہيں كہ آيا يہ حقيقت كے مخالف ہے يا نہيں تو لكھنے ميں كوئى حرج اور گناہ نہيں، كيونكہ اس ميں كوئى ممانعت نہيں، اور اس ميں جو گناہ و معصيت حاصل ہوگى جس كا آپ كو علم نہيں تو اس كا گناہ لكھانے والے پر ہوگا.
ليكن اگر آپ كو يہ علم ہو كہ جو كچھ وہ لكھوا رہے ہيں وہ جھوٹ اور فراڈ پر مشتمل ہے تو آپ كے ليے يہ عرضداشت لكھ كر دينى جائز نہيں كيونكہ يہ باطل اور غلط كام اور گناہ و معصيت ميں ان كى معاونت شمار ہوتى ہے.
اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور آپ ان لوگوں كى جانب سے جھگڑا نہ كريں جو اپنے نفسوں كى خيانت كرتے ہيں، يقينا اللہ تعالى ہر خيانت كرنے والے گنہگار سے محبت نہيں كرتا النساء ( 107 ).
جس كے متعلق آپ كو علم ہو جائے كہ وہ غلط اور جھوٹ لكھوا رہا ہے، اور اپنے دعوى ميں جھوٹا ہے تو اسے آپ نصيحت كريں، اور اسے اللہ تعالى سے ڈرائيں، اور اس كے نتيجہ ميں سنائى گئى وعيد اور جھوٹ كى سزا اور باطل كا دعوى كرنے والے كے انجام سے آگاہ كريں، ہو سكتا ہے وہ آپ كى نصيحت قبول كر كے اپنے غلط ارادہ اور عزم سے باز آجائے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
ماخوذ از: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 503 )