میاں بیوی میں باہمی رضا مندی کے ساتھ طلاق ہو گئی؛ تو کیا یہ ممکن ہے کہ عورت اپنی عدت اپنے بیٹے کے گھر میں گزارے؟ واضح رہے کہ عورت کو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے حیض نہیں آتا، اور وہ کافی دیر سے اپنے خاوند کے گھر میں نہیں رہ رہی، وہ بیٹے کے ساتھ ہی رہتی ہے جہاں بھی اس کا بیٹا جاتا ہے وہیں چلی جاتی ہے۔
مطلقہ عورت کا خاوند کی اجازت سے کہیں اور عدت گزارنے کا حکم ، نیز طلاق سے قبل عورت خاوند کے گھر نہ ہو تو عدت گزارنے کے لیے واپسی لازم ہو گی؟
سوال: 355960
Table Of Contents
رجعی طلاق والی عورت کا عدت کے لیے خاوند کی رضا مندی سے کہیں اور منتقل ہونے کا حکم
جس عورت کو طلاق رجعی ہوئی ہے اس پر عدت کے دوران خاوند کے گھر میں رہنا ضروری ہے، عورت کے لیے خاوند کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، نہ ہی خاوند اسے اپنے گھر سے نکال سکتا ہے، چنانچہ طلاق دینے کے بعد دونوں کی رضا مندی ، یا خاوند کی اجازت کا اس معاملے میں کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہاں خاوند کی رہائش پر رہنا اللہ کا حق ہے خاوند کا نہیں۔
جیسے کہ "بدائع الصنائع" (3/ 205) میں ہے کہ:
"فرمانِ باری تعالی ہے: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ یعنی تم اپنی بیویوں کو وہیں رہائش دو جہاں تم رہتے ہو۔ تو اس آیت میں رہائش دینے کا حکم بیویوں کو اپنی رہائش سے نکالنے یا ان کے بذات خود نکل جانے کی ممانعت بیان کر رہا ہے۔ ویسے بھی رجعی طلاق کے بعد بھی یہ عورت اسی کی بیوی ہے؛ کیونکہ ہر اعتبار سے ابھی بھی وہ اسی کے عقد میں ہے؛ لہذا اس کے لیے جیسے طلاق سے قبل گھر سے نکلنا جائز نہیں تھا، اب بھی نہیں ہے۔ البتہ طلاق کے بعد عورت کے لیے خاوند کی اجازت کے بعد بھی گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے اگرچہ طلاق سے قبل خاوند کی اجازت سے باہر نکلنا جائز تھا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے بعد باہر نکلنے کی ممانعت عدت کی وجہ سے ہے اور عدت اللہ تعالی کا حق ہے، اور اللہ کے حق کو کالعدم قرار دینے کا اختیار خاوند کے پاس نہیں ہے، البتہ طلاق سے پہلے خاوند کا ہی حق تھا؛ کیونکہ طلاق سے قبل باہر نکلنے کی حرمت کا تعلق خالص خاوند سے تھا، اس لیے طلاق سے قبل اپنے حق کو کالعدم قرار دے کر بیوی کو گھر سے باہر جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔" ختم شد
ایسے ہی "الفواكه الدواني" (2/98) میں ہے کہ:
"عدت گزارنے والی کے لیے اپنے اس گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے جس میں وہ عدت سے پہلے تھی یعنی حرام ہے، بلکہ اگر موت یا طلاق سے قبل خاوند اسے اپنے گھر سے کہیں اور منتقل کر دے، اور خاوند کے منتقل کرنے کا عمل مشکوک ہو تو عورت کو واپس اسی گھر میں واپس لایا جائے گا، اسی طرح خاوند نے تو اسے منتقل نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ہی موت یا طلاق سے قبل کسی اور جگہ تھی تو تب بھی واپس آنا ضروری ہے۔۔۔
خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسی طرز زندگی پر رہائش پذیر رہے گی جیسے وہ پہلے رہائش پذیر تھی، اگر خاوند نے اسے کسی اور معیار زندگی پر منتقل کر دیا ہو تو واپس سابقہ طرز زندگی پر واپس آ جائے گی۔" ختم شد
اور اسی طرح "حاشية قليوبي وعميرة" (4/56) میں ہے کہ:
"عورت اسی گھر میں رہے گی جہاں وہ اپنے خاوند کے ساتھ جدائی کے وقت تھی، خاوند یا کوئی اور اسے وہاں سے نہیں نکال سکتا، نہ ہی وہ خود اس مکان سے کہیں اور جا سکتی ہے، چنانچہ اگر وہ خاوند کے ساتھ مفاہمت کر کے کہیں اور بلا وجہ جانا چاہے تو یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے، لہذا حکمران اس عورت کو ایسا کرنے سے روکے گا؛ کیونکہ عدت در حقیقت اللہ تعالی کا حق ہے، اور یہ حق اسی مکان میں واجب ہوا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ
ترجمہ: تم اپنی بیویوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو، اور نہ ہی وہ خود اپنے گھروں سے نکلیں۔ [الطلاق: 1]
اس آیت کریمہ میں لفظ بیوت کو اللہ تعالی نے بیویوں کی طرف مضاف کر کے استعمال کیا ہے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ گھر ان کی رہائش گاہ ہیں۔
صاحب "النھایہ" لکھتے ہیں کہ: اس حوالے سے رجعی طلاق والی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔" ختم شد
اسی طرح "شرح منتهى الإرادات" (3/ 206) میں ہے کہ:
"رجعی طلاق والی عورت طلاق دینے والے خاوند کے گھر میں رہنے کے بارے میں وہی حکم رکھتی ہے جو بیوہ کا ہے، اس پر امام احمد نے صراحت کے ساتھ موقف بیان کیا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ
ترجمہ: تم اپنی بیویوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو، اور نہ ہی وہ خود اپنے گھروں سے نکلیں۔ [الطلاق: 1]
طلاق دینے والا خاوند چاہے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت دے یا نہ دے، عورت کے لیے جانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس گھر میں رہنا عدت کا تقاضا ہے اور عدت اللہ تعالی کا حق ہے، لہذا خاوند کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ عدت کے تقاضے کو ختم کرے، بالکل ایسے ہی جس طرح خاوند کے پاس عدت ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔" ختم شد
دوم:
رجعی طلاق والی عورت کا طلاق سے قبل کسی اور گھر میں منتقل ہونا
اگر بیوی طلاق سے قبل کسی اور گھر میں مستقل رہنے کے لیے منتقل ہو گئی تھی، اور یہ خاوند کی اجازت سے تھا تو ایسی خاتون اسی گھر میں عدت گزارے گی۔
اور اگر وہ عورت خاوند کی اجازت سے منتقل نہیں ہوئی تھی تو پھر خاوند کے گھر واپس آنا لازم ہو گا، تاہم شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ اگر خاوند طلاق دینے کے بعد اجازت دے دیتا ہے تو جائز ہے، بالکل ایسے ہی جس طرح وہ پہلے منتقل ہونے کیا اجازت دے سکتا تھا۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ "الأم" (5/243) میں کہتے ہیں:
"اگر خاوند نے جس گھر میں بیوی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا اس گھر کے علاوہ کسی اور گھر میں منتقل کر دیا اور پھر اسے طلاق دے دی، یا خاوند فوت ہو گیا تو عورت اسی گھر میں عدت گزارے گی جہاں خاوند نے اسے خود منتقل کیا تھا، یا پھر طلاق کے بعد بیوی کو اجازت دے دی کہ وہ اس گھر میں منتقل ہو جائے۔۔۔
مزید کہا: اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خاوند کسی معینہ گھر میں منتقل ہونے کی اجازت دے یا اسے کھلی چھٹی دے دے کہ وہ جہاں مرضی چلی جائے، یا پھر آغاز میں بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر منتقل ہو گئی تھی لیکن بعد میں خاوند نے اسے وہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان تمام تر صورتوں میں وہ وہاں عدت گزار سکتی ہے۔
پھر کہا: اور اگر بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر منتقل ہوئی تھی ، پھر ابھی خاوند نے اجازت نہیں دی تھی کہ خاوند فوت ہو گیا، یا خاوند نے طلاق دے دی، تو ایسی صورت میں عورت واپس اسی گھر میں آ جائے گی جس گھر میں وہ خاوند کے ساتھ رہتی تھی۔" ختم شد
اسی طرح "تحفة المحتاج" (8/ 264) میں ہے کہ:
"ہاں اگر خاوند اسے کسی اور مکان میں پہنچنے کے بعد اجازت دے دیتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ خاوند کی اجازت سے ہی منتقل ہوئی ہے۔"
تحفۃ المحتاج کے حاشیہ "حاشية الشرواني" میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ:
"کتاب الروض اور اس کی شرح میں یہ بات بالکل صراحت کے ساتھ ہے کہ دوسرے گھر میں منتقل ہونے کی اجازت اگر موت یا طلاق واقع ہونے کے بعد ملتی ہے تو وہ وجوباً دوسرے گھر میں ہی عدت گزارے گی۔" ختم شد
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر خاوند بیوی کو کسی اور گھر ، یا شہر میں منتقل ہونے کی اجازت دے دیتا ہے، اور عورت کے منتقل ہونے سے قبل وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس عورت پر اسی گھر میں عدت گزارنا لازم ہے جس گھر میں وہ خاوند کے ساتھ تھی؛ کیونکہ یہی اس کی رہائش ہے، یہاں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا سامان منتقل کر دیا گیا تھا یا نہیں؛ کیونکہ جب تک وہ خود یہاں سے منتقل نہیں ہو جاتی یہی گھر اس کا اصلی مسکن ہے ۔" ختم شد
"المغنی" (8/169)
مزید تفصیلات کے لیے آپ : "الإنصاف" (9/309) کا بھی مطالعہ کریں۔
مذکورہ تفصیلات کے بعد:
اگر متعلقہ خاتون طلاق سے قبل ہی اپنے خاوند کی اجازت سے اپنے بیٹے کے گھر منتقل ہو گئی تھی تو وہ وجوبی طور پر اپنے بیٹے کے گھر میں ہی عدت گزارے گی۔
اور اگر خاوند کی اجازت کے بغیر بیٹے کے گھر منتقل ہوئی تھی تو اس پر اپنے خاوند کے گھر میں آنا لازم ہے اور وہیں پر وہ عدت گزارے گی، الا کہ خاوند اسے اس گھر میں عدت گزارنے کی اجازت دے دے جس میں وہ خاوند کی اجازت کے بغیر منتقل ہوئی۔
وہاں پر اس کی عدت 3 ماہ ہو گی؛ کیونکہ جن خواتین کو حیض نہ آئے تو ان کی عدت 3 ماہ ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب