نماز عيد كا طريقہ كيا ہے ؟
نماز عيد كا طريقہ
سوال: 36491
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نماز عيد كا طريقہ يہ ہے كہ امام شہر سے باہر نكل كر عيد گاہ ميں لوگوں كو دو ركعت نماز پڑھائے.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں كہ: نماز عيد الفطر دو ركعت ہيں، اور نماز عيدالاضحى بھى دو ركعت ہيں، تمہارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے يہ مكمل نماز ہے قصر نہيں، جس نے افترا باندھا وہ خائب و خاسر ہوا"
سنن نسائى حديث نمبر ( 1420 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" عيد الفطر اور عيد الاضحى كے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد گاہ تشريف لے جاتے اور وہاں سب سے پہلے نماز پڑھاتے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 956 ).
نماز عيد كى پہلى ركعت ميں تكبير تحريمہ كے بعد چھ يا سات تكبيريں كہى جائيگى اس كى دليل مندرجہ حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ:
نماز عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں پہلى ركعت ميں سات تكبيريں اور دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيرات ہيں جو كہ ركوع كى تكبيروں كے علاوہ ہيں"
اسے ابو داود رحمہ اللہ نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل ( 639 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
تكبيرات كے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے اور پہلى ركعت ميں سورۃ ق كى تلاوت كرے، اور پھر دوسرى ركعت ميں پانچ تكبيرات كہنے كے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھے اور پھر سورۃ القمر كى تلاوت كے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيدين كى نماز ميں يہى دو سورتيں تلاوت كيا كرتے تھے.
اور اگر چاہے تو پہلى ركعت ميں سورۃ الاعلى اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الغاشيۃ كى تلاوت كر لے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے عيد كى نماز ميں سورۃ الاعلى اور سورۃ الغاشيۃ كى تلاوت فرمائى تھى.
امام كو نماز عيد ميں ان سورتوں كى تلاوت كر كے سنت كا احياء كرنا چاہيے تا كہ اگر كوئى ايسا كرے تو مسلمان لوگوں كو علم ہو كہ ايسا كرنا سنت ہے اور وہ انكار نہ كريں.
اور نماز عيد كے بعد امام لوگوں كو خطبہ دے، اور خطبہ ميں كچھ حصہ عورتوں كے ساتھ خاص ہو جس ميں عورتوں كے احكام اور انہيں وعظ و نصيحت كى جائے، اور جس سے انہيں اجتناب كرنا چاہيے ان اشياء سے انہيں منع كيا جائے، كيونكہ عيد كے خطبہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسے ہى كيا كرتے تھے.
ديكھيں: فتاوى اركان الاسلام للشيخ محمد ابن عثيمين رحمہ اللہ صفحہ نمبر ( 398 ) اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 300- 316)
نماز عيد خطبہ سے قبل ہونى چاہيے:
عيد كے احكام ميں شامل ہے كہ نماز عيد خطبہ سے قبل ادا كى جائے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز عيدگاہ گئے اور خطبہ سے قبل نماز عيد كى ادئيگى سے ابتداء كى"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 958 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 885 ).
اور نماز عيد كے بعد خطبہ ہونے كى دليل يہ حديث بھى ہے كہ:
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر اور عيد الاضحى كے روز عيد گاہ جايا كرتے اور وہاں نماز عيد سے ابتدا كرتے، پھر نماز سے فارغ ہو كر لوگوں كے سامنے كھڑے ہو كر انہيں وصيت كرتے، اور انہيں حكم ديتے، اور اگر كوئى لشكر روانہ كرنا ہوتا تو اسے روانہ كرتے، يا كسى چيز كا حكم دينا ہوتا تو اس كا حكم بھى ديتے، جبكہ سب لوگ اپنى صفوں ميں ہى بيٹھے ہوتے تھے، اور پھر وہاں سے چلے جاتے"
ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ:
لوگ اسى پر عمل كرتے رہے حتى كہ ميں مروان ـ جبكہ وہ مدينہ كا گورنر تھا ـ كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كے روز عيدگاہ نكلے اور جب عيدگاہ پہنچے تو كثير بن صلت نے وہاں منبر بنا ركھا تھا، اور مروان اس منبر پر نماز عيد سے قبل ہى چڑھنا چاہتا تھا، ميں نے اس كا كپڑا پكڑ كر كھينچا تو وہ مجھ سے كپڑا چھڑا كر منبر پر چڑھ گيا اور نماز عيد سے قبل خطبہ دينے لگا تو ميں نے اللہ كى قسم تم نے تبديلى كر لى ہے !!! تو اس نے جواب ديا: ابو سعيد جس كا تمہيں علم تھا وہ جا چكا.
تو ميں نے جواب ديا: جو ميں جانتا ہوں اللہ كى قسم وہ اس سے بہتر ہے جو ميں نے جانتا، تو اس نے جواب ديا: نماز عيد كے بعد لوگ ہمارى بات نہيں سنتے تھے، تو ميں خطبہ نماز عيد سے قبل كر ليا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 956 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب